Jadid Khabar

ایس آئی آرکیخلاف اپوزیشن کی محاذآرائی

Thumb

 ایس آئی آر کے خلاف بڑھتے ہوئے اعتراضات کے پیش نظر سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعہ کو الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ یہ نوٹس کیرل سرکار اور مسلم لیگ کی عرضیوں پرجاری کیا گیا ہے۔درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ”ایس آئی آر مبینہ طورپر ایک ایسا خفیہ عمل ہے جس کے ذریعہ ووٹروں کی شناخت غیرشفاف طریقے سے کی جارہی ہے۔اس میں خامیاں بھی ہیں اور انتخابی عمل پر اس کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔“کانگریس پہلے ہی ایس آئی آر کے خلاف دہلی میں ایک بڑی عوامی ریلی کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اپوزیشن کی شدیدمخالفت کے باوجود ملک کی بارہ ریاستوں میں ایس آئی آر کرانے کا اعلان کیا،اس سے جہاں ایک طرف اپوزیشن میں شدید بے چینی ہے تو وہیں اس عمل میں شامل بی ایل او بھی شدید ہیجان میں مبتلا ہیں۔چار نومبر سے شروع ہوئے اس عمل میں اکیاون کروڑ ووٹروں کا احاطہ کیا جائے گا۔ اپوزیشن پارٹیاں اسے جائز ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرکے فرضی ووٹروں کو اس میں شامل کرنے کی مہم قرار دے رہی ہیں۔یوں تو اپوزیشن جماعتیں شروع سے ہی ایس آئی آر کے خلاف رہی ہیں، لیکن بہار کے یک طرفہ انتخابی نتائج نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں اور یہ نتائج الیکشن کمیشن کی کاریگری تعبیر کئے جارہے ہیں۔بہار میں ایس آئی آر کے دوران 65/لاکھ ووٹروں کو انتخابی فہرستوں سے خارج کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ ایس آئی آر کے خلاف نہ صرف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے بلکہ اس کی مخالفت میں عوامی تحریک بھی شروع کی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ایس آئی آر سے صحیح اور غلط رائے دہندگان کی پہچان ہوگی، لیکن یہ عمل اتنا مشکل اور پریشان کن ہے کہ ایک طرف تو اس سے عوام بے حد پریشان ہیں تو دوسری طرف اسے  انجام دینے والا سرکاری عملہ شدید ذہنی دباؤ میں ہے۔ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ اب تک تین بوتھ لیول آفیسر(بی ایل او)کام کے دباؤ کی وجہ سے خودکشی کرچکے ہیں۔اس ذہنی اور اعصابی دباؤ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر کا عمل فروری تک پورا کرنے کی حد  مقرر کی ہے۔ اس درمیان  بارہ ریاستوں کے 50 کروڑ ووٹروں کو اس عمل سے گزرنا ہے اور اس محدود وقت میں اسے پورا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اطلاعات کے مطابق جن صوبوں میں بی ایل او نے خودکشی کی ہے، ان میں کیرل، راجستھان  اور مدھیہ پردیش شامل ہیں جبکہ مغربی بنگال میں ایک بی ایل اونے خودکشی کی دھمکی دی ہے۔ تمل ناڈو میں ایک آنگن واڑی خاتون کارکن نے جان دینے کی کوشش کی۔ انتہائی قدم اٹھانے والے ان سبھی لوگوں کے خاندانوں اور دیگر افسران نے کام کے ضرورت سے زیادہ بوجھ کو اس کے لیے مورد الزام قرار دیا ہے۔ان سنگین واقعات کی وجہ سے کئی صوبوں میں بی ایل او نے احتجاج اور بائیکاٹ کی راہ بھی اختیار کی ہے۔ 
سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن پچھلے کافی عرصے سے اپنے متنازعہ اقداما ت کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کے نشانے پر ہے۔ اس  پر سب سے زیادہ الزامات لوک سبھا میں اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے لگائے ہیں اور ان میں سب سے سنگین الزام ووٹ چوری کا  ہے۔ راہل گاندھی اب تک مہاراشٹر، ہریانہ اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں ثبوتوں کے ساتھ ووٹ چوری کے الزامات لگاچکے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ راہل نے  اپنے الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت بھی پیش کئے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ الیکشن کمیشن پر اپنی آئینی ذمہ داریوں سے روگردانی کے جو سنگین الزاما ت لگے ہیں، ان کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا ہے۔ البتہ حکمراں بی جے پی لیڈران نے الیکشن کمیشن کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زورلگارکھا  ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خودمختاری آئینی ادارہ ہے، جس نے ماضی میں غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن منعقد کرانے میں اہم اور قابل ستائش رول ادا کیا ہے، لیکن جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے تب سے الیکشن کمیشن کا کردار یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی آزاد اور خودمختار آئینی ادارہ ہونے کی بجائے حکمران وقت کے اشاروں پر کام کرنے والا کوئی سیاسی پلیٹ فارم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بارالیکشن کمیشن سنگین الزامات کے گھیرے میں ہے۔سب سے زیادہ سوالات ایس آئی آر کے عمل پر اٹھ رہے ہیں۔ 
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر ایسی کون سی ہنگامی ضرورت پیش آگئی تھی کہ ملک میں ووٹر لسٹوں پر خصوصی نظرثانی کی یہ تکلیف دہ مہم شروع کی گئی ہے۔ حکومت کا کام عوام کو سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرنا ہے، لیکن ہمارے ملک میں حکومت اور سرکاری مشنری کا کام عوام کو حیران اور پریشان کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ کو ایس آئی آر کے موجودہ عمل سے پریشان لوگوں کی مشکلات کو دیکھنا ہوتو کہیں اور نہیں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش چلے جائیے جہاں ایس آئی آر کے عمل سے گزرنے والوں کی پیشانیوں پر سردی کے اس موسم میں پسینے آرہے ہیں اور وہ اپنی شہریت اور شناخت کے حوالے سے شدید خلجان میں مبتلا ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس عمل کا بنیادی مقصدووٹر لسٹوں کی طہارت ہے، لیکن اگر یہ ضروری بھی تھا تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اسے ایک ایسے معمے کی شکل میں کیوں پیش کیا کہ جدید تکنالوجی کے دور میں بھی لوگ اس کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔نہ تو بی ایل او کی سمجھ میں ہی کچھ آرہا ہے اور نہ عام لوگ اسے سمجھ پارہے ہیں۔نہ ہی عوام 2003 کی اپنی تفصیلات دے پارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائب کے مبہم ہونے کی شکایتیں عام ہیں۔ اس مشکل عمل سے لاعلم بی ایل اور ووٹر ایک دوسرے سے شاکی  ہیں۔ بیشتر معاملوں میں مقامی سیاسی کارکن اپنے حساب سے ناموں کو بڑھانے یا گھٹانے کی رپورٹ بنوارہے ہیں۔ بی ایل او ہینڈ بک کے پہلے باب کی چوتھی شق میں گھر گھر جاکر سروے کرنے کی بات کہی گئی ہے، لیکن زمینی سطح پر شاید ہی ایسا ہورہا ہو۔ تمام سروے رپورٹوں پر آج بھی کشمکش اس لیے ہے کہ کیونکہ سرکاری ملازمین گھر گھر جاکر اصل حقائق معلوم نہیں کرتے۔ اسی لیے ان کے سروے صحیح صورتحال نہیں بتاسکے۔ ان حالات میں ایس آئی آر کے عمل کو آسان بنانا بے حد ضروری ہے۔ بی ایل او کو مکمل تربیت کے ساتھ سخت احکامات ہوں کہ ہر گھر پر جانے، فارم بھروانے وغیرہ کی پختہ اطلاع ہی الیکشن کمیشن کو بھیجے۔
ایس آئی آر کے مشکل عمل اور سیاسی مقاصد کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیاں کھل کر میدان میں آگئی ہیں۔ جن اپوزیشن ریاستوں میں ایس آئی آر کا عمل ہونا ہے، وہاں اس کی شدید مخالفت اور مزاحمت ہورہی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے پچھلے دنوں ایس آئی آر کے خلاف کلکتہ میں ایک زبردست عوامی ریلی نکالی تھی۔ ادھر کانگریس پارٹی نے بھی ایس آئی آر کے خلاف آرپار کی لڑائی لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے دسمبر میں دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک زبردست ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔پارٹی نے ایس آئی آر کو جمہوریت کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی اور نریندرمودی کے اشاروں پر کام کررہا ہے۔ ادھرکیرل میں بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر ایس آئی آر کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا گیاہے۔ کیرل اسمبلی میں ایس آئی آر کے خلاف متفقہ قرارداد پاس کرنے کے بعد اب ریاستی حکومت نے اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا ہے کہ”ایس آئی آر کو جس طریقے سے عمل میں لایا جارہا ہے وہ ملک کی جمہوری سیاست کے لیے سازگار نہیں ہے۔اس سے انتظامی تعطل پیدا ہوسکتا ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کمیشن اس معاملے میں کیا موقف اختیار کرتا ہے۔