بہار اس وقت پوری طرح انتخابی بخار میں ڈوب چکا ہے۔انڈیا اتحاد نے لالو پرساد کے بیٹے تیجسوی یادو کو وزیراعلیٰ کا چہرہ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ملاح برادری سے تعلق رکھنے والے نئے نویلے سیاستداں مکیش سہنی نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ کیا ’انڈیا اتحاد‘ میں مسلمان ایک بار پھر دری بچھانے کاکام کریں گے۔ کیونکہ دوتین فیصد ملاح برادری کے نوآموز لیڈر کو تو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنادیا گیا ہے لیکن بہار کے اٹھارہ فیصد مسلمان کسی شمار قطار میں نہیں ہیں، جن کے ووٹ بڑی تعداد میں راشٹریہ جنتا دل کی جھولی میں گرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیرسٹر اسد الدین اویسی کی قیادت والی مجلس اتحاد المسلمین نے ”اپنی قیادت اور اپنی سیاست“ کے نعرے کے تحت بہار میں اپنے 25/امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی نے ایک بار پھر ہر الیکشن کی طرح بہار میں بھی فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے بیانات ہیں جن میں وہ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔یہاں تک کہ انھوں نے مسلمانوں کو نمک حرام تک قرار دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”مرکزی حکومت آیوشمان، مفت اناج، رقم کی تقسیم، کسان سمان یوجنا کے تحت مذہب یا ذات کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتی، مسلمان بھی اس سے یکساں طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں، مودی کسی کو گالی بھی نہیں دیتے، اس کے باوجود مسلمان انھیں ووٹ نہیں دیتے۔“
گری راج سنگھ کا تعلق ریاست بہار سے ہے اور وہ وہاں کی بیگو سرائے سیٹ سے رکن پارلیمان ہیں۔ مرکزی کابینہ میں ٹیکسٹا ئل کی وزارت کا چار ج بھی ان کے پاس ہے۔ انھوں نے مرکزی وزیر کی حیثیت سے حلفبرداری کے دوران یہ بھی حلف اٹھایا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کریں گے، لیکن وہ جب بھی بولتے ہیں تو مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور انھیں مختلف زاویوں سے نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے اندر نفرت کا زہراس حد تک سرایت کرگیا ہے کہ وہ ملک کے وسائل کو حکمراں بی جے پی کی جاگیر تصور کرنے لگیہیں۔
مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے، اس کا سبب دراصل گری راج سنگھ جیسے لوگوں کی زبان اور ذہن ہی ہے جس میں مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جہاں تک حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا سوال ہے تو یہ ہر ہندوستانی شہری کا بنیادی حق ہے، کیونکہ یہ اسکیمیں جن وسائل سے عوام تک پہنچتی ہیں،وہ بی جے پی لیڈروں کی جیب سے نہیں آتے۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہ وسائل ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے سے آتے ہیں اور گری راج سنگھ کو وزیر کی حیثیت سے جو عیش وآرام حاصل ہے، وہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی گاڑھی کمائی کا ہی حصہ ہیں۔ سب سے پہلے تو خود گری را ج سنگھ کو ان سہولتوں کو چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں۔
بہار میں اس وقت سبھی جماعتیں عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے رائے دہندگان کو رجھانے میں مصروف ہیں۔ بہار میں فی الحال نتیش کمار اور بی جے پی کی مخلوط حکومت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور الیکشن بھی مل کر لڑرہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بی جے پی اور نتیش کمار عوام کو یہ بتائیں کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں عوامی فلاح وبہبود اور نظم ونسق کے معاملے میں کیا کارنامے انجام دئیے ہیں، لیکن وہ ایسا کرنے کی بجائے مسلمانوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ خاص طورپر بی جے پی کے لیڈران روزانہ ہی ایسا کوئی شوشہ چھوڑتے ہیں جس سے ماحول میں فرقہ واریت کا زہر پھیلے اور بہار کے عوام حقیقی مسائل اور مصائب کو بھول کر فرقہ وارانہ بنیادوں پرتقسیم ہوجائیں۔ ظاہرہے بی جے پی کے پاس ہندومسلم تفریق پیدا کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔یہی بی جے پی کا آسان نسخہ بھی ہے۔ کسی بھی الیکشن میں بی جے پی کھلے عام ہندو کارڈ کھیلتی ہے اور اگر اپوزیشن کا کوئی لیڈر اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس پر ’تشٹی کرن‘ کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے لیڈران جارحانہ ہندو جذبات کو مطمئن کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔ حال ہی میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک انتخابی ریلی کے دوران برقعہ کے نشانہ بنایا۔
گری راج سنگھ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ”مودی کسی کو گالی بھی نہیں دیتے۔‘‘یہ سچ ہے کہ وہ کسی کو گالی نہیں دیتے، لیکن جب وہ انتخابی موڈ میں ہوتے ہیں تو مسلمانوں کو ان کا لباس دیکھ کر پہچان لیتے ہیں۔ وہ اپنی انتخابی تقریروں میں بنانگ دہل کہتے ہیں کہ”کانگریس اوبی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے اور میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔‘‘پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کے دستور میں ریزرویشن کی جو تقسیم کی گئی ہے، اس کے حساب سے کوئی بھی کسی کا ریزرویشن نہیں چھین سکتا۔ مگر وزیراعظم نریندر مودی کانگریس کو مسلمانوں کا طرفدار ثابت کرنے کے لیے ایسا بیان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے جوسراسر ناقابل عمل ہے۔وزیراعظم نے عام انتخابات کے علاوہ کئی اسمبلی انتخابات میں ایسے بیانات دئیے ہیں جن کی ضرب براہ راست مسلمانوں پر پڑی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم یا ان کی کابینہ میں شامل بیمار ذہنیت کے وزیر مسلمانوں کے ادا کئے ہوئے ٹیکسوں پر اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کیوں کھڑے کرتے ہیں ۔ یہ بھی ایک قسم کی احسان فراموشی اور گری راج سنگھ کے لفظوں میں ’نمک حرامی‘ ہی تو ہے۔
گری راج سنگھ نے مسلمانوں کو نمک حرام قرار دینے کی جو جرات کی ہے اس کی مذمت اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی کئی گئی ہے۔ آرجے ڈی کے ترجمان مرتیونجے تیواری کا کہنا ہے کہ ’سب جانتے ہیں کہ بی جے پی لیڈران ہندومسلم کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، بہتر تعلیم اور طبی سہولتوں کے بارے میں باتیں نہیں کرسکتے۔‘ ممبرپارلیمنٹ پپو یادو نے گری راج سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے اندر جھانک کردیکھئے اور پہچانئے کہ آزادی کی لڑائی کے دوران کون غدار تھے۔ بھارت کے سب سے بڑے دشمن کو پہچانئے، جنھوں نے انگریزوں کی خدمت کی، ان کی حکومت کو قائم رکھا۔ نمک حرام وہ لوگ تھے جو انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے دوستوں کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ کانگریس ترجمان سریندر راجپوت نے کہا کہ ’ان کا (گری راج سنگھ) کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ہندومسلم اور مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے اور پاکستان کا ویزا جاری کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور کام نہیں رہ گیا ہے۔مرکزی حکومت انھیں سرکاری سطح پر ذہنی مریض قرار دے کر ان کے علاج کا بندوبست کرے، کیونکہ وہ اپنی وزارت یا کسی اور کے لیے کوئی کام نہیں کرتے، وہ صرف فرقہ پرستی کی سیاست اور ملک کی تقسیم اور مذہبی کشیدگی پیدا کرتے ہیں۔‘
اپوزیشن کے اس ردعمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گری راج سنگھ کو مرکزی کابینہ میں شامل ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے ہندومسلم کا راگ الاپتے رہیں۔ موقع بہ موقع مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال قائم کرتے رہیں۔ اب تک کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ انھوں نے اپنی وزارت کے محکمے میں کوئی حصولیابی نہیں دکھائی۔ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان سے ٹیکسٹائل کی وزارت لے کر انھیں وزارت برائے فرقہ وارانہ منافرت کا وزیر بنادیا جائے تاکہ وہ اپنا کام باضابطہ طورپر انجام دیتے رہیں۔یوں ٹیکسٹائل کی وزارت میں اپنے بخئے ادھڑوانا انھیں زیب نہیں دیتا۔