اقوام متحدہ نے گزشتہ روز مہذب دنیا کو یہ دردناک خبر سنائی تھی کہ’اگر اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں غزہ تک امداد نہ پہنچی تو ۴۱/ہزار فلسطینی بچوں کی موت واقع ہوسکتی ہے۔‘ غزہ کے بارے میں یہ کوئی اکلوتی چونکانے والی خبر نہیں ہے۔ وہاں سے ہرروزایک سے بڑھ کر ایکچونکانے والی خبر آتی ہے، لیکن اب ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ان خبروں کو پوری طرح پڑھے بغیر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں قتل وغارت گری روز کا معمول ہو۔ روزہی بے گناہ انسان موت کے منہ میں جارہے ہوں اور انسانی المیہ بدترین شکل اختیارکرتا چلا جارہا ہواور ایک وحشی درندے کے سامنے پوری دنیا بے بس اور لاچار ہو، وہاں ہم جیسے مجبور انسان کربھی کیا سکتے ہیں۔ گزشتہ بیس مہینوں سے ظالم اور وحشی اسرائیل نے غزہ میں درندگی اور بربریت کاجو تانڈو جاری کررکھا ہے، اس میں اب تک ۳۵ /ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ سوالاکھ کے قریب زخمی ہیں اور لاکھوں بے گھر اور بے در ہیں۔شہید ہونے والوں میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔بائیس لاکھ انسانوں کی یہ آبادی، جو پہلے ہی ایک محدود پٹی قیدتھی، وہاں صدی کا ایک ایساانسانی المیہ جنم لے چکا ہے، جسے پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف یوں تو شروع سے ہی آوازیں اٹھتی رہی ہیں، لیکن حال ہی میں یوروپی ملکوں سمیت ۲۲ ملکوں نے صیہونی ریاست کے خلاف جو مشترکہ بیان جاری کیا ہے، وہ دھیان دینے لائق ہے۔اتنا ہی نہیں برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ نئے آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات معطل کردئیے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ تعاون پر نظرثانی کی بات کہی ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ گزشتہ روز جن ۲۲/ملکوں نے اسرائیل کے خلاف سخت بیان جاری کیا ہے،اس میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ وہ بھی نہیں جن کی نسلوں کا غزہ میں مسلسل صفایا ہورہا ہے اور وہ بڑے اطمینان سے اپنی نسل کشی کا منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہاں گزشتہ پیر کو تین ماہ کے تعطل کے بعد غزہ میں داخل ہونے والی پانچ امدادی گاڑیوں میں دو گاڑیاں ایسی ضرور تھیں جو خوردنی اشیاء کی بجائے کفنوں نے لدی ہوئی تھیں۔ یہ کفن ایک عرب ملک نے اقوام متحدہ کی وساطت سے وہاں بھیجے ہیں، جو اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ غزہ کے باشندوں کو زندہ رکھنے کی بجائے دفنانے کی تیاریاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومین رائٹس واچ کے سربراہ رامی عبدہ نے کہا کہ ’کفن کوئی انسانی امداد نہیں بلکہ اجتماعی موت کی پیشگی تیاری ہے۔ یہ غزہ کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو خوراک پہنچانے کی نہیں، قبریں کھودنے کی تیاری ہے۔‘ عبدہ نے اسرائیل کے خلاف برطانیہ، فرانس اور کناڈا کے مشترکہ بیان کوسراہتے ہوئے کہا کہ ’ان مغربی ملکوں کی جانب سے قابض اسرائیل کی جنگی جرائم پر مذمت ان عرب ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت اور واضح ہے جنھوں نے برسوں سے فلسطینی عوام کی پشت پناہی کا دعویٰ کیا۔‘
حقیقت یہی ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم وبربریت کی انتہا کرنے والے اسرائیل پر مسلم ممالک تو خاموش ہیں، لیکن برطانیہ، فرانس اور کناڈا جیسے ملکوں نے یہودی ریاست پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ تینوں ملکوں نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں فوجی کارروائیاں بند نہ کیں اور امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی نہیں اٹھائی تو یہ ممالک اسرائیل کے خلاف ممکنہ اقدامات کریں گے۔ اس معاملے میں سب سے سخت موقف برطانیہ نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا کہ ’اسرائیلی حکومت کی جانب سے عام شہریوں کے لیے بنیادی انسانی امداد کی فراہمی سے انکار بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آسکتا ہے۔ ان ممالک نے مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی بھی مخالفت کی ہے۔ بلا روک ٹوک غزہ میں مدد پہنچانے کا مطالبہ کررہے ملکوں میں جرمنی اور فرانس جیسے یوروپی ممالک شامل ہیں تو وہیں جاپان بھی اس کا حصہ ہے۔برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کے لیے دی جانے والی مدد میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہ پیدا کی جائے۔ اسرائیل کے خلاف جن ملکوں نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے، ان میں آسٹریلیا، کناڈا، ڈنمارک، اٹلی،اسپین، نیدر لینڈ اور سوئیڈن جیسے ملکوں کے نام شامل ہیں، مگر ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔یہی دراصل فلسطین تنازعہ کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ کسی مسلم ملک کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف بیان بھی دے سکے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ہفتہ جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور قطر کا دورہ کیا تووہاں ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیار ہی نہیں خریدے بلکہ قطر کے امیر نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اربوں ڈالر کا ایک شاہی جہاز ٹرمپ کی خدمت عالیہ میں پیش کیا۔ دونوں ہی ملک ٹرمپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہے اور یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ خدا را غزہ میں ہماری نسلوں کے صفائے کی مہم رکوادیجئے۔ ہمیں بھی دوسروں کی طرح زندہ رہنے کا موقع دیجئے۔ یہاں تک کہ ریا ض میں صدر ٹرمپ نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ اگر سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلے تو یہ ان کے لیے ایک اچھی خبر ہوگی۔ یہی موقع تھا کہ سعودی عرب کو فلسطین سے متعلق اپنا موقف واضح کرنا چاہئے تھا،جو انھوں نے نہیں کیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ کی پشت پناہی سے ہی اسرائیل نے غزہ میں جہنم تخلیق کیا ہے اور وہ آج بھی اس کی پشت پر پوری بے شرمی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ فلسطینی تنازعہ کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ نے ہرمرحلہ میں اسرائیل کا ساتھ دیا اور اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکڑوں کو قراردادوں کو ویٹو کیا ہے، لیکن اس کے باوجود عرب دنیا نے امریکہ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ اب جبکہ امریکہ غزہ کے دس لاکھ باشندوں کو لیبیا منتقل کرنے کی باتیں کررہاہے تب بھی کوئی مزاحمت نہیں نظر آرہی ہے۔وہی لیبیا جس کی امریکی مداخلت کے نتیجے میں پہلے ہی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ نتن یاہو کے ظلم وبربریت کے خلاف خود اسرائیلی عوام بھی پریشان ہیں اور وہ پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑتے چلے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ یائر گولن نے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ’وہ بچوں کو مشغلے کے طورپر قتل کررہی ہے اور تل ابیب اقوام عالم کے درمیان ایک اچھوت ریاست بنتی جارہی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ’ایک سمجھدار ریاست اپنیشہریوں کے خلاف جنگ نہیں کرتی، بچوں کو شوقیہ نہیں مارتی اور نہ ہی آبادی کو زبردستی بے دخل کرتی ہے۔‘گولن کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیلی حکومت اخلاقیات سے عاری منتقم مزاج لوگوں سے بھری ہوئی ہے، جو ہنگامی صورتحال میں ملک کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔‘