Jadid Khabar

ہندپاک سرحد پر جنگ کے بادل

Thumb

پہلگام حملے کے بعد ہندوپاک کے درمیان کشیدگی اپنی انتہاؤں تک پہنچ گئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو اقدامات کئے ہیں، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں کئے گئے۔ نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کی فوجیں جنگی مشقیں کررہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے درمیان دھمکیوں کا بازار بھی گرم ہے۔واگہ اور اٹاری کی سرحدیں ہی بند نہیں کی گئی ہیں بلکہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھی ہندوستان کے لیے بند کردی ہیں جس سے ہندوستانی طیارے طویل مسافت طے کرکے یوروپ، امریکہ اور خلیجی ملکوں کی طرف جارہے ہیں۔ تمام دوطرفہ معاہدے ختم کردئیے گئے ہیں۔ہندوستان نے سب سے سخت اقدام سندھ آبی معاہدے کو ختم کرنے کا کیا ہے جس سے پاکستان میں پانی کا بحران پیدا ہونے کے اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس اقدام کو پاکستان نے اپنے خلاف اعلان جنگ سے تعبیر کیا ہے۔جنگ بندی کا شملہ معاہدہ بھی ختم کردیا گیا ہے اور لوگ سانسیں روک کر جنگ چھڑنے کا انتظارکررہے ہیں، لیکن جو لوگ جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں ان کے نزدیک یہ ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے، کیونکہ دونوں پڑوسی ملک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اگر خدانخواستہ جنگ چھڑی تو وہ محض روایتی ہتھیاروں تک محددو نہیں رہے گی۔ بعض رپورٹوں میں دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کے خدشات بھی ظاہر کئیگئے  ہیں۔حالانکہ اس کا امکان بہت کم ہے، لیکن جدید میزائل نظاموں کی رفتار خطرے کو بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کا شاہین میزائل جہاں دہلی تک سات منٹ میں پہنچ سکتا ہے، وہیں ہندوستان کی پرلے میزائل اسلام آباد تک چھ منٹ سے بھی کم وقت میں پہنچ سکتی ہے۔گودی میڈیا جہاں ایک طرف جنگ کا دباؤ بڑھا رہا ہے تو وہیں دوسری طرف وہ پہلگام حملے کو اندرون ملک ہندومسلم کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ ملک میں بعض مقامات پر کشمیری طلباء پر حملے بھی کئے گئے ہیں اور اترپردیش کے آگرہ شہر میں گؤ رکشکوں نے نام پر پوچھ کر ایک مسلم نوجوان کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کردیا ہے۔ یعنی پہلگام کا انتقام ہندوستانی مسلمانوں اور کشمیریوں سے لینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں نے پہلگام حملے کی مذمت جتنے شدید انداز میں کی ہے اتنی کسی اور نے نہیں کی۔ کشمیری بھی مسلسل اس کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور پوری وادی میں سوگ کا ماحول ہے۔
بلاشبہ گزشتہ منگل کو پہل گام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسے ممبئی حملوں کے بعد شہریوں پر کی گئی سب سے زیادہ وحشیانہ کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔ سیاحوں کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ پہل گام کی شہرہ آفاق بیسرن ویلی میں قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ حملہ آور وں نے پولیس اور فوجی وردی میں سیاحوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد26 بتائی گئی ہے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ اس حملے کی پورے ملک میں شدید مذمت ہورہیہے۔ سبھی نے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے قصورواروں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔حالانکہ پاکستان نے اس حملے میں اپنا ہاتھ ہونے سے انکار کیاہے، لیکن اب تک خفیہ ایجنسیوں نے جو معلومات اکٹھا کی ہیں،ان میں شک کی سوئی ہمیشہ کی طرح اسی کی طرف ا ٹھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس راستے کی بھی نشاندہی کردی گئی ہے جہاں سے حملہ آور پہل گام تک پہنچے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے تو یہ ہماری خفیہ اورسیکورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہماری حکومت نے و ادی کشمیر میں دراندازی کو روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کررکھے ہیں۔ اس پر بیش بہا دولت خرچ کرنے کے علاوہ اسرائیل سے خریدے گئے خفیہ آلات بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہماری فوج اور نیم فوجی دستے بھی ہمہ وقت سرحد پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس سب کے باوجود اگر دہشت گرد سرحد عبور کرکے دہشت پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ہمارے حفاظتی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
بلا شبہ یہ ایسی بزدلانہ کارروائی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف کشمیری عوام اور سیاست دانوں میں بھی اتنا ہی غم وغصہ ہے جتنا کہ ملک کے دیگر خطوں کے عوام میں۔ جہاں ایک طرف محبوبہ مفتی اور میرواعظ نے اس حملے کی مذمت کی ہے، وہیں حملے کی رات وادی کے باشندے کینڈل مارچ نکالتے رہے۔لال چوک پر بھی اس حملے کے خلاف بے نظیر احتجاج کیا گیا۔کشمیریوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ملک کے باقی حصوں میں بھی مسلمانوں نے جمعہ کی نماز کے بعد دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔اس وحشیانہ حملے میں کشمیر کے مقامی باشندوں کی شرکت کا امکان اس لیے نہیں ہے کہ اس کا سب سے بڑا نقصان سیاحت کو پہنچے گا۔ سیاحت،وادی کشمیر کی شہ رگ ہے اور گرمیوں کے موسم میں یہاں ملک وبیرون ملک کے سیاحوں کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ سیاح مقامی باشندوں کو روزی روٹی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس میں کشمیریوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب دہشت گردوں نے نہتے اور بے گناہ سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کی تو انھیں ہسپتالوں تک پہنچانے اور طبی امداد فراہم کرنے کا کام مقامی باشندوں نے کیا اور ان کی فوری مداخلت سے کئی زخمیوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔یہاں تک کہ عادل حسین شاہ نام کے ایک مقامی مزدور نے اس لیے جان گنوائی کہ اس نے دہشت گردوں سے ان کی رائفل چھیننے کی کوشش کی تھی۔اگلے دن سرینگر کے اردو اخبارات سیاہ حاشیوں کے ساتھ شائع ہوئے اور سبھی نے اس کارروائی کی پرزور مذمت کی۔ دراصل دہشت گردی اور فسطائیت کو اتحاد اور یکجہتی کے راستے سے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ ملک میں جو عناصر فرقہ وارانہ منافرت پھیلارہے ہیں وہ دراصل ملک دشمنوں کے ہاتھوں کو ہی مضبوط کررہے ہیں۔ بیرونی خطرات سے نپٹنے کے لیے اندرونی طور پر ملک کے باشندوں کا اتحاد بنیادی ضرورت ہے۔ ہم اسی وقت بیرونی دشمنوں کو زیرکرسکتے ہیں جب داخلی طورپر متحد ہوں گے۔یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا ادراک ہم جتنی جلدکرلیں، اتنا ہی بہتر ہے۔
 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کشمیر میں انتہاپسندی کا سب سے منفی اثر وہاں کی سیاحت پر پڑا ہے۔لیکن اب کئی برسوں سے صورتحال بدل گئی ہے۔جن لوگوں نے ملی ٹینسی شروع ہونے کے بعد وادی کا سفر نہیں کیاہے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں سیاحت دم توڑ چکی ہے۔ میرا بھی یہی خیال تھا، لیکن گزشتہ سال جب میں نے ایک ہفتہ وادی کشمیر میں گزارا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں آنے والے سیاح دہشت گردوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ میں نے گل مرگ، سون مرگ اور پہل گام میں جن سیاحوں کا ہجوم دیکھا ان میں نوّے فیصد غیر مسلم تھے اور پوری طرح بے خوف ہوکر وادی کے حسین مقامات سے لطف اندوز ہورہے تھے۔یہ سیاح  جن ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں، جن شکاروں میں ٹھہرتے ہیں اور جو لوگ اپنیٹیکسیوں سے انھیں سیاحتی مقامات تک پہنچاتے ہیں، وہ سب کے سب مقامی مسلمان ہیں۔ یعنی مقامی باشندوں کی روزی روٹی ان ہی سیاحوں سے چلتی ہے۔ ایسے میں یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کشمیری عوام ان پر حملہ آور ہوں گے۔ ظاہرہے ایسا کرنا خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔جن لوگوں نے پہل گام کو لہولہان کیا ہے وہ کشمیری عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں، کیونکہ پہل گام کی واردات کے بعد نوّے فیصد سیاحوں نے کشمیر چھوڑ دیا ہے۔ 
 وادی کشمیر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی خوبصورتی اور حسن کا ہرکوئی شیدائی ہے۔ وادی کے کئی مقامات سوئزرلینڈ کے سیاحتی مقامات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کا حسن لا جواب ہے۔ سوئزرلینڈ تک پہنچنے کے لیے جہاں لاکھوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں آپ کشمیر کے سیاحتی مقامات کی سیر ہزاروں میں کرسکتے ہیں۔یہ وادی جنت نظیر ہے اور ہندوستان کا دل ہے۔ اس دل کو توڑنے کے لیے جو طاقتیں سرگرم ہیں، وہ زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مودی سرکار نے جن وعدوں اور ارادوں کے ساتھ کشمیر سے دفعہ370 کا خاتمہ کیا تھا۔ جن منصوبوں کے تحت جموں وکشمیر کی صوبائی حیثیت ختم کرکے اسے یونین ٹیریٹری بنایا گیا تھا اور دہشت گردی پر قابو پانے کی باتیں کہیں تھیں وہ آخر زمین پر کیوں نظر نہیں آرہی ہیں۔ملک کے عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر کشمیر سے سیاہ رات کا خاتمہ کب ہوگا اور وہاں کے باشندے چین کی نیند کب سوسکیں گے؟ ظاہر ہے یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب حکومت کو دینا چاہئے۔جنگ کی باتیں کرنا اور اس کی تیاری کرنا آسان ہوسکتا ہے لیکن اس کی آڑ میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی۔ حکومت ہندنے پہلگام میں سیکورٹی چوک کی بات تسلیم کی ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اس چوک کے ذمہ داروں کی سزا بھی طے کی جائے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ روکنے کے لیے سعودی عرب اور ایران نے پہل کی ہے۔ کاش دونوں ملکوں کی قیادت عقل کے ناخن لے اور برصغیر کو تباہی وبربادی سے بچائے۔