Jadid Khabar

نفرت پھیلانے والوں کا علاج یہ ہے

Thumb

مسلم دشمن بیان دینے والے ایک بی جے پی لیڈر کو جیل رسید کرتے ہوئے کیرل ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتہ جو کچھ کہا ہے، اسے حقیقی انصاف کی ایک مثال قرار دیا جانا چاہئے۔حالانکہ ابھی سزاکا اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن عدالت عالیہ نے فرقہ وارانہ بیان بازی کے خلاف جو سخت موقف اختیار کیاہے، وہ  اب تک ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی اختیار نہیں کیا تھا۔گز شتہ24/فروری کو کیرل بی جے پی کے لیڈر پی سی جارج کو باربار نفرت انگیز بیان دینے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت نے دوہفتہ کی عدالتی تحویل میں بھیجتے ہوئے کہا کہ ”مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے والے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افرادکو لازمی طورپر جیل کی سزا دی جانی چاہئے اور انھیں محض جرمانہ ادا کرکے قید سے بچنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔“واضح رہے کہ کیرل بی جے پی کے لیڈر پی سی جارج کے خلاف درج ایک شکایت میں ان پر کیرل پولیس ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت قابل سزا جرم کا الزام عائد کیاگیا تھا۔ پی سی جارج نے ایک ٹی وی مباحثے میں بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد اور فرقہ پرست قرار دیا تھا۔حالانکہ بعد میں انھوں نے معافی بھی مانگی تھی، لیکن عدالت نے ان کے کسی بھی عذرکوقبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینے کی ایسی کارروائیوں پر لازمی طورپر قید کی سزا دی جانی چاہئے تھی۔“
یہ غالباً ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ مسلم دشمن بیان دینے والے کسی لیڈر کے کسی بھی عذر کو قبول نہ کرتے ہوئے سیدھے جیل بھیجا گیاہے۔دراصل اب حکمراں جماعت بی جے پی میں یہ  فیشن بن گیا ہے کہ آپ کو اسی وقت عہدہ یا عزت ملے گی جب آپ مسلمانوں کے خلاف سخت سے سخت بیان دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ  اب بی جے پی کے لیڈرعہدہ حاصل کرنے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک مسلم دشمن بیان دیتے ہیں اور قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ایسا بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں پولیس اور قانونی مشنری ان لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت دہلی بی جے پی لیڈر کپل مشرا ہیں، جنھوں نے 2020میں انتہائی اشتعال انگیز بیان دے کر نارتھ ایسٹ دہلی میں نہایت خوفناک فساد بھڑکایا تھا اور ان کے خلاف باضابطہ شکایت بھی درج کرائی گئی تھی، لیکن حال ہی میں دہلی پولیس نے انھیں کلین چٹ دے دی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج نے جب اس معاملے میں دہلی پولیس کو پھٹکار لگائی تھی تو اس جج کا ہی تبادلہ کردیا گیا تھا۔اس واقعہ سے صاف ہوگیا تھا کہ حکومت کی مشنری ایسے فرقہ پرست اور مسلم دشمن عناصر کی پشت پناہی اس حدتک کررہی ہے کہ وہ عدالتی کام کاج کو بھی متاثر کرنے لگی ہے۔اس کے برعکس اگر کسی مسلمان پر اشتعال انگیزی کا کوئی جھوٹا الزام بھی عائد ہوجائے تو اسے تہہ تیغ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اس کا تازہ ثبوت مہاراشٹر کے مالوان کے ایک حالیہ واقعہ سے ملتا ہے، جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران پیش آیا۔ پولیس نے ایک پندرہ سالہ نا بالغ مسلم نوجوان اور اس کے والد کو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے کے الزام میں نہ صرف گرفتار کرلیا بلکہ شیوسینا (شندے) کے شرپسند ممبر اسمبلی نتیش رانے کے مطالبہ پر میونسپل کارپوریشن نے اس کے گھر اور دکان پر بلڈوزر چلاکر اسے زمین دوز کردیا۔ یہ کارروائی کسی ثبوت کے بغیر محض ایک شرپسند کے دعوے کی بنیاد پر کی گئی۔المیہ یہ بھی ہے کہ مالوان میں وکیلوں کی تنظیم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کوئی بھی وکیل مذکورہ نابالغ مسلم نوجوان اور اس کے والدکے مقدمہ کی پیروی نہیں کرے گا۔ اس ظلم جبر اور آخری درجہ کی ناانصافی کے خلاف ترنمول کانگریس کے لیڈر ساکیت گوکھلے نے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھا ہے۔
اب آئیے ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے منافرانہ بیان دینے والوں کے خلاف سخت احکامات جاری کررکھے ہیں، لیکن جہاں کہیں بی جے پی کی سرکار ہے وہاں سپریم کورٹ کے احکامات کو ٹھینگا دکھادیا جاتا ہے اور ایسی اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ ہی درج نہیں ہوتا۔ کیرل میں ایسا اس لیے ہوا ہے کہ وہاں بائیں بازو کی حکومت ہے، جو ہر قسم کی فرقہ پرستی اور منافرت کے خلاف ہے۔یہی وجہ ہے کہ سرکاری وکیل نے پی سی جارج کے نفرت انگیز بیان کے تعلق سے عدالت میں ایک مضبوط موقف اختیار کیا۔ جب جارج کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ”ان کے موکل نے جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت یا بدنیتی کو فروغ دینے والے بیانات یا تقریریں نہیں کیں بلکہ چینل کی بحث کے دوران انھیں اکسایا گیا، جس کے لیے انھوں نے معافی بھی مانگ لی۔“اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ”پی سی جارج اس سے قبل بھی مسلمانوں کے خلاف بغیر کسی اشتعال کے ایسے نفرت انگیز بیانات دے چکے ہیں جس سے صاف طورپر اس کی نیت ظاہر ہوتی ہے۔ بدامنی ایک دم پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات لوگوں کے ذہنوں میں رہتے ہیں اور اس سے آگے چل کر دشمنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔“ عدالت عالیہ کے جج جسٹس پی وی کنہی کرشنن نے اس سے قبل بی جے پی لیڈر کوپیشگی ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ”نفرت انگیز تقاریر سے نپٹنے کے لیے موجودہ تعزیری دفعات کو ناکافی قرار دیا تھا، کیونکہ مجرم جرمانہ ادا کرکے کارروائی سے بچ سکتا ہے۔“ فاضل جج نے اس معاملے میں پارلیمنٹ اور لاء کمیشن کو غور کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ اس حکم کی کاپی لاء کمیشن کو مہیا کرائی جائے۔ پی سی جارج کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے فاضل جج نے نوٹ کیا کہ بی جے پی لیڈر بار بار فرقہ وارانہ بیانات دینے کے عادی ہیں۔2022 میں بھی ان پر مقدمہ کیا گیا تھا اور اس وقت ہائی کورٹ نے انھیں اس شرط پر ضمانت دی تھی کہ وہ اس طرح کے تبصرے سے گریز کریں گے، اس کے باوجود انھوں نے اس طرح کے تبصرے کئے۔ عدالت نے مختلف دفعات میں سزا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ”باربار جرم کرنے والے بھی محض جرمانہ ادا کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ پہلی بار جرم کا مرتکب جرمانہ ادا کرکے بچ سکتا ہے، دوسری بار جرم کرنے والا بھی جرمانہ ادا کرکے بچ سکتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ لازمی جیل کی سزا ضروری ہے۔“
سبھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرنا بی جے پی کی ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وہ جانتی ہے کہ جتنا زیادہ نفرت پھیلے گی اتنا ہی اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں نفرت انگیز تقریروں کی باڑھ آگئی ہے۔’انڈیا ہیٹ لیب‘ کی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں گزشتہ سال نفرت انگیز تقریروں میں 74فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔2024میں ایک ہزار سے زیادہ نفرت انگیز تقریریں کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے 1165 معاملات میں 98 فیصد سے زیادہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس قسم کے80 فیصد واقعات بی جے پی اور این ڈی اے کے زیرانتظام صوبوں میں پیش آئے۔ان میں بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں اترپردیش، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر سرفہرست ہیں۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے واقعات میں مئی2024کے آس پاس تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا، جب ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات کی مہم عروج پر تھی۔ رپورٹ میں وزیراعظم نریندر مودی کی اس تقریر کا بھی ذکر ہے جو انھوں نے21/اپریل2024 کو راجستھان کے بانسواڑہ میں کی تھی اور جس میں انھوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی قابل اعتراض ریمارکس دیتے ہوئے انھیں درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی کی اس تقریر کے بعد ایسے واقعات میں تین گنا اضافہ درج کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انتخابات کے دوران مسلم مخالف نفرت کو سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس موقع پر جو462نفرت انگیز تقریریں کی گئیں ان میں 452کے ذمہ دار بی جے پی لیڈر تھے۔ان اعداد وشمار سے تصویر پوری طرح صاف ہوجاتی ہے۔