Jadid Khabar

’زخم کو پھول تو صرصر کوصبا کہتے ہیں‘

Thumb

پچھلے دنوں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے جب یہ بیان دیا تھا کہ ”ہندوستان کو اصل آزادی گزشتہ سال ایودھیا میں رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ کے دن حاصل ہوئی ہے اور یہی ہندوستان کی اصل خودمختاری کا دن ہے“ توفوری طورپر اس بیان کی اہمیت ہماری سمجھ میں نہیں آئی تھی، لیکن اب جبکہ یوم جمہوریہ کے موقع پر مودی سرکار نے بابری مسجد انہدام کی کلیدی ملزم سادھوی رتھمبرا کو ’پدم بھوشن‘ سے نوازا ہے تو ہماری سمجھ میں آگیا ہے کہ15/اگست 1947کو حاصل ہونے والی آزادی کتنی ناقص تھی اور اس راہ میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے کیسے ناکارہ لوگ تھے کہ اب رام مندر کی تعمیر کی صورت میں اس کی تلافی ممکن ہوسکی ہے۔ ملک اس وقت جس سمت میں سفر کررہا ہے، اس میں ستم ایجاد کرنے والے ہی سب سے بڑے سورما قرارپائے ہیں۔ یہی وجہ ہے حکومت نے گزشتہ سال ان لال کرشن اڈوانی کو’بھارت رتن‘ سے نوازا تھا جنھوں نے بابری مسجد کے انہدام کی راہ ہموار کرنے کے لیے سومناتھ سے ایودھیا تک کی انتہائی اشتعال انگیز یاترا نکالی تھی۔عام خیال یہ ہے کہ اڈوانی کی اسی یاترا کے نتیجے میں ملک کے اندرفرقہ وارانہ منافرت کا وہ آتش فشاں تیار ہوا تھا، جس کا خمیازہ اس ملک کو آج تک بھگتنا پڑرہا ہے۔
رام جنم بھومی آندولن کی شعلہ بیان لیڈر سادھوی رتھمبرا کو ’پدم بھوشن‘ سے نوازنے کا اعلان مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ انھیں یہ اعزاز ’سماجی خدمات‘ کے لیے صدر جمہوریہ کی طرف سے پیش کیا جائے گا۔سبھی جانتے ہیں کہ یہ شہری اعزاز ہرسال یوم جمہوریہ کے موقع پر ملک کی ان سرکردہ شخصیات کودئیے جاتے ہیں، جنھوں نے فنون لطیفہ، آرٹ، ہنرمندی،سماجی خدمت یا زندگی کے دیگر میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہوں یاسماجی ہم آہنگی کے لیے کام کیا ہو۔جبکہ سادھوی رتھمبرا 90کی دہائی میں شروع کئے گئے اس انتہائی اشتعال انگیز اور نفرت آمیزرام جنم بھومی آندولن کی لیڈر رہ چکی ہیں جس نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ایسا نقصان پہنچایا تھا جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ہے۔ 
سبھی جانتے ہیں کہ رام جنم بھومی آندولن، آزادی کے بعد فرقہ وارانہ منافرت کو اپنی انتہاؤں پر لے جانے والی انتہائی خطرناک تحریک تھی جس کے نتیجے میں بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ رونما ہوا،اور ہزاروں بے گناہ انسان ہلاک ہوئے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد سی بی آئی نے جو مقدمہ قائم کیا تھا، اس میں دیگر ملزمان کے ساتھ سادھوی رتھمبرا بھی کلیدی ملزم تھیں، جن کے خلاف باقاعدہ چارج شیٹ داخل ہوئی تھی۔ بعد کو جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی آراضی ہندو فریق کو سونپنے کا فیصلہ سنایاتو اس میں یہ بھی اعتراف بھی شامل تھا کہ بابری مسجد کا انہدام ایک ’مجرمانہ عمل‘ تھا۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سی بی آئی عدالت نے فردجرم داخل کرنے کے باوجود چالیس سے زیادہ ملزمان کو ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر بری کردیا۔یہ ہندوستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے مضحکہ خیزمقدمہ کہا جاسکتا ہے جس کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہونے کے باوجود عدالت نے انھیں ناکافی قراردیا اور تاریخ کے سب سے بڑے جرم کے سبھی ملزمان بری کردئیے گئے۔بابری مسجد کا انہدام دن کے اجالے میں ہوا تھا اور اس کے سبھی ملزمان کی تصویریں اور ویڈیوز میڈیا میں شائع اورنشر ہوئے تھے، مگر ان سب کو ’ناکافی‘ قراردے دیا گیا۔
 قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جس وقت بابری مسجد شہید کی جارہی تھی تو اس کے گنبدوں پر چڑھے ہوئے کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان ہی سادھوی کی طرف سے یہ نعرہ لگایا جارہا تھا کہ ”ایک دھکا اور دو،بابری مسجد توڑدو۔“اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سادھوی رتھمبرا کو ’پدم بھوشن‘ دینے کا اعلان مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ جب سے رام جنم بھومی آندولن شروع ہوا تب سے مسلمان زبردست اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔ان کے ساتھ ظلم وناانصافی کی ایک ایسی تاریخ لکھی گئی ہے جس کی مثال آزاد ہندوستان میں نہیں ملتی اور اس کاموازنہ صرف ان مظالم سے کیا جاسکتا ہے جو انگریزی دور میں اس ملک کے باشندو ں پر ڈھائے گئے۔مسلمان ابھی تک اپنے ان زخموں کا مداوا تلاش کررہے ہیں اور یہ حکومت  ہے کہ انھیں ہرروز ایک نیا زخم دے رہی ہے۔ سادھوی رتھمبرا کو دیا گیا شہری اعزازاس کا تازہ ثبوت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کو ’پدم بھوشن‘ دئیے جانے پر مودی سرکار کو تنقیدوں کا سامنا ہے۔ سینئرصحافی ہرتوش سنگھ پال نے اسے ایوارڈ کی قدرومنزلت کے ساتھ کھلواڑ قراردیا تو معروف سماجی کارکن پروفیسراپوروا نند نے سادھوی کے ساتھ پدم بھوشن ایوارڈ کے لیے منتخب ہونے والے دیگر افراد کو ایوارڈ تقسیم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کا مشورہ دیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سادھوی رتھمبرا کو ’پدم بھوشن‘ دینے کا حکومت کا فیصلہ اس پرلگنے والے اس الزام کی توثیق ہے کہ وہ ایسے افراد کو نوازتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے اور اسلام مخالف نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ سادھوری رتھمبرا کو پدم بھوشن دئیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ ”ایسے وقت میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے جب لوگوں کو ترقی اور عہدہ ان کی نفرت انگیزی کی بنیاد پر مل رہا ہے اور ایسے لوگ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے عہدوں پر فائز ہورہے ہیں۔“ 
سادھوی رتھمبرا وشوہندو پریشد کی خواتین اکائی ’درگا واہنی‘ کی بانی چیئر پرسن ہیں۔ اس حیثیت سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مذہبی منافرت پھیلانے اور مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے بیانات دیتی رہیں، جس سے ملک میں مسلم مخالف منافرت کو ہواملے اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو۔ سبھی جانتے ہیں کہ ایسا کرنا ملکی قوانین کے اعتبار سے قابل سزا جرم ہے، لیکن درجنوں مقدمات قائم ہونے کے باوجود انھیں آج تک کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ موجودہ حکومت کے نزدیک رام جنم بھومی مکتی آندولن میں حصہ لینے اور بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کرنے والے کسی سزا کے نہیں بلکہ انعام واکرام کے مستحق ہیں اور سادھوی رتھمبرا کو ملنے والا ’پدم بھوشن‘  اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے مزید لوگوں کو شہری اعزازات سے سرفراز کیا جائے گا۔
آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں اندورمیں دعویٰ کیا تھا کہ ”ہندوستان کو حقیقی آزادی ایودھیا میں گزشتہ سال 24/جنوری کورام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ کے دن حاصل ہوئی تھی۔“انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندوستان کی اصل خودمختاری کا دن یہی ہے اور اس دن کو ’بھارت کی خودمختاری کے دن‘کے طورپر منایا جانا چاہئے، کیونکہ صدیوں تک غیر ملکی حملوں کے بعد یہ حصولیابی ملی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ رام مندر تحریک کسی کی مخالفت میں نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد بھارت کی خودی کو بیدار کرنا تھا اور ملک کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ آزادانہ طورپر کھڑا ہوسکے۔ اسی تقریب میں رام جنم بھومی ٹرسٹ کے سیکریٹری چمپت رائے نے رام مندر تحریک کو ملک کے لیے فخر کی علامت قراردیا۔
ان بیانات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ رام مندر کی وہ تحریک جس میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کی جانیں گئیں اور اربوں روپوں کی املاک تباہ ہوئیں، آرایس ایس کے لیے فخر کی علامت تھی، جس نے بھارت کی خودی بیدار کرنے کا کام کیا۔یہی وجہ ہے کہ اب مودی سرکار اس تحریک میں حصہ لینے والے ’مجاہدین آزادی‘ کواعزازسے سرفراز کررہی ہے۔ سادھوی رتھمبرا کو ملنے والا ’پدم بھوشن‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس پر ہمیں احمد فراز کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
زخم کو پھول تو صرصر کو صبا کہتے ہیں 
جانے کیا دور ہے، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں