Jadid Khabar

گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ پروشوہندو پریشدکا دعویٰ

Thumb

سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعرات کو ایم آئی ایم صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کی وہ عرضی سماعت کے لیے منظورکرلی ہے جس میں انھوں نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کو لاگو کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔عدالت عظمیٰ اس عرضی پر آئندہ 17/فروری کو ان دیگر عرضیوں کے ساتھ سماعت کرے گی، جو اس سے پہلے دائر کی گئی ہیں۔اس وقت ملک کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ آیا مسجد مندر تنازعات کو ختم کرنے کے لیے 1991میں جوایکٹ بنایا گیاتھا، کیا وہ باقی رہے گا یا پھر اسے قانونی پیچیدگیوں میں پھنسا کر معطل کردیا جائے گا۔ اس ایکٹ کوجانبدارانہ قرار دیتے ہوئے فرقہ پرست اور فسطائی عناصر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ شرپسند عناصر جس طرح یومیہ بنیاد پر ملک میں تاریخی مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم چلا رہے ہیں، اگر وہ یونہی جاری رہی تو ہم کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔ایودھیا میں بابری مسجد کو عدالت کے راستے ہڑپ کرلینے کے بعد شرپسندوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ روزانہ ایک نئی مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم میں جٹ گئے ہیں۔بابری مسجد کے بعد ان کا سب سے بڑا نشانہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ ہے۔ان دونوں تاریخی مسجدوں کے خلاف وشوہندو پریشد نے حال ہی میں جو بیان دیا ہے، وہ ہمارے اس مضمون کا اصل محرک ہے۔
 وشو ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ”اگر مسلمان کاشی اور متھرا پر اپنا دعویٰ ترک کردیں تووہ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنا بند کردیں گے۔“ پریشد کے جوائنٹ جنرل سیکریٹری سریندر کمار جین نے کہا کہ ”مسلمانوں کے جنون کی وجہ سے آج ہندو سماج مسجدوں کے نیچے مندروں کی تلاش میں ہے۔“ اس سے قبل وی ایچ پی کے جنرل سیکریٹری ملند پرانڈے نے کہا تھا کہ ”عدالتوں میں مسلم عبادت گاہوں پر ہندوؤں کے دعوے اس لیے بڑھ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ایودھیا، متھرا اور کاشی کی عبادت گاہیں رضاکارانہ طورپر ہندوؤں کے سپرد نہیں کی ہیں۔“درحقیقت وشو ہندو پریشد نے جسے مسلمانوں کا جنون کہا ہے کہ وہ دراصل اپنے دستوری حقوق کے لیے ان کی لڑائی ہے اور وشوہندو پریشد جس قسم کے دعوے کررہاہے، وہ اس کا جنون ہے۔ یعنی عددی طاقت کا ایسا جنون جو اقلیت کی ہرشے کو ہڑپ لینا چاہتا ہے۔ان کی زمین، جائیداد، زندہ رہنے کا حق اور سب سے بڑھ کر ان کے آئینی حقوق۔
تاریخی مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کے لیے عدالتوں کے دروازوں پر دستک اس لیے دی جارہی ہے کہ جس طرح سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی پر رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ سنایا تھا، اسی طرح دیگر مسجدوں کو بھی عدالتوں کے راستے سے قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ متھرا اور کاشی کی مسجدوں کو متنازعہ بنانے کے لیے عدالتوں میں چارہ جوئی چل رہی ہے۔ اسی طرز پر سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے مقامی عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی۔ اس عرضی پر جس انداز میں عدالت نے کارروائی کی اور آناً فاناً سروے کا حکم دیا، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ عدالتوں میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بابری مسجد کے معاملے میں مسلم تنظیموں نے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی جو بات کہی تھی، وہ ان پر بھاری پڑی ہے۔کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مسلم فریق کی تمام باتیں درست تسلیم کرنے کے باوجود فیصلہ فریق مخالف کے حق میں صادر کیا، جو انصاف کی بنیادی روح کے صریحاً خلاف تھا۔
اب آئیے کاشی اور متھرا کے معاملے میں وشوہندو پریشد کے بے ہودہ بیان کی طرف۔سبھی جانتے ہیں کہ وشوہندو پریشد آرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے اور یہ وہی وشوہندو پریشد ہے جس نے 90کی دہائی میں رام جنم بھومی مکتی آندولن کے نام سے ایک انتہائی اشتعال انگیز تحریک چلائی تھی۔ اسی تحریک نتیجے میں ملک کے اندر فرقہ پرستی کا آتش فشاں تیار ہوا تھا اور 6/دسمبر1992کو بابری مسجدکی المناک شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا۔ پریشد کے مذکورہ بیان سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ملک میں جگہ جگہ تاریخی مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف جو مقدمے دائر کئے جارہے ہیں، ان کے پیچھے سنگھ پریوار ہی ہے، جس کا بنیادی مقصد بابری مسجد کی طرح کاشی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کو منہدم کرکے وہاں مندر تعمیر کرنا ہے۔یہ فہرست روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور اس میں وہ تمام تاریخی مسجدیں شامل ہورہی ہیں جو ملک کے مختلف مقامات پر مسلم دورحکومت میں تعمیر ہوئی تھیں۔حالانکہ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ”ایودھیا میں رام مندر کی تعمیرہندوؤں کے لیے آستھا کا سوال تھا، لیکن اب یومیہ بنیادوں پر اس قسم کے مسائل کھڑے کرنا بے سود ہے۔“ 
ہم نے بھی موہن بھاگوت کے بیان سے یہی نتیجہ اخذکیا تھا کہ جگہ جگہ مسجدوں کے خلاف جو چارہ جوئی کی جارہی ہے، اس میں آرایس ایس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے اوریہ کام بقول موہن بھاگوت”لیڈری چمکانے کے لیے کیا جارہا ہے۔‘‘لیکن اب اس معاملے میں وشوہندو پریشد کے کھل کر سامنے آجانے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ نہ صرف کاشی اور متھرا کے خلاف قانونی چارہ جوئی آرایس ایس کے ایماء پر ہورہی ہے بلکہ مسلمانوں کو دباؤ میں لینے کے لیے دیگر مسجدوں کے خلاف عدالتوں میں جو عرضیاں دائر کی گئی ہیں، ان کے پیچھے بھی سنگھ پریوار ہی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ سنگھ پریوار کے لوگ ہمیشہ دوہری زبان بولتے ہیں۔ اس کی ایک تنظیم کچھ کہتی ہے اور دسری کچھ اور کہتی ہے۔ جہاں تک مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم کا سوال ہے تو یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور اس کے پیچھے مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت سے محروم کرنے کی سازش کارفرما ہے۔بار بار اس بات کا حوالہ دیا جاتاہے کہ جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے تو پھر کیوں اس قسم کے تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں۔ یہ بات ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس قانون کو سب سے پہلے بی جے پی کے ایک لیڈر اشونی اپادھیائے نے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اب سپریم کورٹ اس معاملے پر سماعت کررہا ہے۔ سپریم کورٹ یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ عدالتیں عبادت گاہوں کے سلسلے میں کوئی نئی عرضی سماعت کے لیے منظور نہ کریں، لیکن جو عرضیاں پہلے ہی داخل ہوچکی ہیں، ان پر کچھ نہ کچھ کارروائی جاری ہے۔
ملک میں اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور عداوت کاجو ماحول ہے، اس کے پیچھے مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک ہی ہے، جس کی آڑ میں وہ وہ اشتعال انگیزیاں کی گئی ہیں کہ ان کو بیان کرتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے۔ راقم نے چونکہ بطور اخبارنویس ایودھیا کی پوری تحریک کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے، اس لیے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یہ تحریک مسلمانوں کو پوری طرح دیوار سے لگانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ سنگھ پریوار اس کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت پھیلاکر ووٹوں کی صف بندی کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ بی جے پی کو اقتدار میں لاکر ہندوراشٹر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔ان ہی کوششوں کے نتیجے میں بی جے پی نے ملک کے اقتدار پر مکمل قبضہ کرلیا،لیکن ابھی تک ملک کو ہندوراشٹر میں بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے، اس لیے نئے نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔
وشو ہندو پریشد کے جوائنٹ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سریندر کمار جین کا کہنا ہے کہ”اگر مسلمان پہل کریں اور محبت کے ساتھ اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائیں، تعصب ترک کردیں تو ہمارا دل جیت لیں گے، ورنہ ان معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔“ڈاکٹر جین نے کہا کہ’وشوہندو پریشد کے مطابق ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ اب کرشن جنم بھومی اور کاشی وشوناتھ مندر آزاد ہوں گے۔‘ مسٹر جین نے کہا کہ ”امن پسند ہندوسماج 1984سے کاشی اور متھرا پر دعویٰ کررہا ہے۔ اس وقت بھی ہم نے مسلمانوں کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر وہ ان دونوں جگہوں پر اپنا دعویٰ ترک کردیں تو ہندو برادری باقی جگہوں پر اپنا دعویٰ نہیں کرے گی۔‘واضح رہے کہ جس وقت وشوہندو پریشد نے رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا تھا تو اس کے ہاتھوں میں تین ہزار مسجدوں کی فہرست تھی جو اب بڑھ کر تیس ہزار تک جاپہنچی ہے۔یہ محض کاشی اور متھرا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پورے ہندوستان کی کھدائی کا معاملہ ہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ’کھدائی صرف مسجدوں کی ہی کیوں مندروں کی بھی ہونی چاہئے جن کے نیچے بودھ مندر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔شاید اسی لیے اسے ”بھارت کھودو مہم“ کا نام دیا گیا ہے۔