Jadid Khabar

پارلیمنٹ کا وقار کون مجروح کررہاہے؟

Thumb

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا اختتام بہت دردناک حالات میں ہوا ہے۔اتنے دردناک کہ انھیں پوری طرح الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ پارلیمنٹ کوجمہوریت کا مندر کہا جاتا ہے لیکن آج جمہوریت کا یہ مندر لہولہان ہے۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کے اندر یا باہر احتجاج اور ہنگامہ کرتے تھے، لیکن اب اپوزیشن کا کام بھی حکمراں جماعت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔وزیرداخلہ امت شاہ نے امبیڈکر کے خلاف جو توہیں آمیز بیان راجیہ سبھا میں دیا تھا، اس کی تمام ہی پارٹیوں نے مذمت کی ہے اور وزیرداخلہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ بیان ایسا ضرور تھا جس سے امت شاہ کو رجوع کرتے ہوئے معافی مانگنی چاہئے تھی تاکہ معاملہ رفع دفع ہو، لیکن ایسا کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمراں جماعت کے ممبران کو اپوزیشن کے پیچھے لگادیا گیا اور بات سرپھٹول تک جاپہنچی۔ 19/دسمبر کوجس وقت کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران امبیڈکر کی مورتی سے نئی پارلیمنٹ کے صدردروازے کی طرف مارچ کررہے تھے تو بی جے پی ارکان نے ان کا راستہ روک لیا اور دھکا مکی کی گئی جس کے نتیجے میں خود بی جے پی کے ہی دوممبران کے معمولی خراشیں آئیں۔اس کو اتنا بڑا مسئلہ بنادیا گیا کہ معمولی چوٹ والے ممبران کو آئی سی یو میں داخل کرایا گیا اور وہاں انھیں دیکھنے کے لیے مرکزی وزراء کا تانتا بندھ گیا۔ معمولی زخم کو ناسور بتاکراس کا قصورراہل گاندھی کے سرڈالا گیا اور ان کے خلاف پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانے میں باقاعدہ ایف آئی آر درج کرائی گئی، جس میں اقدام قتل کی دفعہ بھی شامل ہے۔ اتنا ہی نہیں بی جے پی کی ایک خاتون ممبر کی طرف سے راہل گاندھی پر اوچھے الزامات لگاکر انھیں گھیرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ معاملہ فی الحال کرائم برانچ کے سپرد ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیرداخلہ امت شاہ کی قیادت والی دہلی پولیس مزید کیا گل کھلاتی ہے۔
پارلیمنٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس کا کوئی معاملہ تھانے تک پہنچا ہے اور صورتحال افسوسناک حدتک خراب ہوگئی ہے۔یہ سب کچھ اسی نئی پارلیمنٹ کے دروازے پر ہوا ہے جسے مودی سرکار نے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ تعمیر کیا ہے اورپارلیمانی جمہوریت کو نیا رخ دے کر اسے مضبوطی فراہم کرنے کی باتیں کہی گئی تھیں۔2014 میں جب وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تھا تو وہ سرکے بل پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تھے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر پیشانی ٹکائی تھی اور یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ جمہوریت کے اس مندر کا وقار بڑھائیں گے، لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اس عرصہ میں جمہوریت کے اس مندر کا وقار مسلسل مجروح ہورہا ہے۔ 
بطوراخبارنویس پارلیمنٹ سے میری وابستگی کا دورانیہ تقریباً تین دہائیوں کو محیط ہے۔میں نے ان برسوں میں یہاں کافی اتارچڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پارلیمنٹ میں صحت مندبحث ہوتی تھی اور یہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔لیکن میں نے یہ دیکھا کہ پچھلے دس سال کے دوران پارلیمانی جمہوریت بہت کمزور ہوئی ہے اور سب کچھ حاکمان وقت کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار راجیہ سبھا کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ ان پر اپوزیشن ارکان کو نظرانداز کرنے اور آرایس ایس کارکن کے طورپر کام کرنے کا الزام ہے۔حالانکہ عدم اعتماد کی اس تحریک کو نامنظور کردیا گیا ہے، لیکن اسے پیش کرتے وقت جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ ہنوزبرقرار ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی راجیہ سبھا کے چیئرمین ہاؤس میں آتے ہیں تو بی جے پی ارکان زور سے ”جے شری رام“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہی نعرہ وزیراعظم مودی کے ہاؤس میں آنے پر لگایا جاتا ہے۔جبکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ میں مذہبی نعرے کبھی نہیں لگائے گئے۔ ظاہر ہے پارلیمنٹ جمہوریت کا مندر ہے رام کا مندر نہیں۔
اس بار جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوا تو مجھے امید تھی کہ ہمارے سیکولر جمہوری دستور پر کوئی کارگر بحث ہوگی۔ کیونکہ ہم آئین کے نفاذ کی پچھترویں سالگرہ منارہے تھے۔ اس موضوع پر دونوں ایوانوں میں بحث تو ہوئی اور سبھی پارٹیوں نے اس میں حصہ بھی لیا۔ اپوزیشن نے جہاں حکومت پر آئین کو مجروح کرنے کا الزام لگایا تو وہیں بی جے پی ارکان نے کانگریس کو گھیرا، اور بات حسب سابق پنڈت جواہر لعل نہرو تک پہنچ گئی۔ اس بحث کا کوئی نچوڑ برآمد نہیں ہوسکا۔ شاید حکومت یہی چاہتی بھی تھی۔کیونکہ اسے اس دستور کی بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں آئی ہے۔ وہ اس آئین میں بھاری ردوبدل کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک کے جمہوری نظام کو تبدیل کیا جاسکے۔ہمارے دستور کی بنیادی روح سیکولرازم، سوشلزم،مساوات اور جمہوریت ہے جس میں اس ملک کے رہنے والوں کو یکساں مواقع اور انصاف کی یقین دہائی کرائی گئی ہے، لیکن اس حکومت کا ایجنڈا یہاں ایک مذہب، ایک زبان اور ایک کلچر کی اجارہ داری قایم کرنے کا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ اس مشن پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو بے گانہ بنادیا گیا ہے۔ اس کی تہذیب، تاریخ اور عبادت گاہوں پر ہرروز نیا حملہ ہورہا ہے۔ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے جج بھی اب یہ کہنے لگے ہیں کہ”یہ ملک اکثریت کے حساب سے چلے گا کیونکہ کٹھ ملا اس ملک کے لیے خطرناک ہیں۔“
اطمینان بخش بات یہ ہے کہ آئین پر بحث کے دوران مسلم مسائل کے تعلق سے کچھ ایسی تقریریں سننے کوملی ہیں جن سے ہم برسوں سے ترس رہے تھے۔ یہاں ایک تقریر کا ذکر کرنا چاہوں گاجو سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے لوک سبھا میں کی ہے۔ یہ تقریر اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اکھلیش یادو بھی 2024کے الیکشن سے پہلے مسلمانوں سے فاصلہ بنائے ہوئے تھے کہ کہیں ان پر بھی مسلمانوں کی ’نازبرداری‘ کی تہمت نہ لگ جائے، لیکن گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں کی زبردست حمایت کے سبب ان کی پارٹی کو اب تک کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں تو ان کا لب ولہجہ بدل گیا ہے، جس کی ایک جھلک سنبھل معاملہ میں ان کی سرگرمی میں بھی نظر آتی ہے۔ اکھلیش یادو نے کہا کہ ”مسلمانوں کو اس ملک میں دویم درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کی جائیداد وں بشمول ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔“انھوں نے آئین پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ”دستور کو بچانے کے لیے ’کرو یا مرو‘ کا نعرہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے جو بھارت چھوڑو تحریک کے دوران ۲۴۹۱ میں وضع کیا گیا تھا۔“ اکھلیش یادو نے حکومت پر اقلیتوں کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ”ان کی جائیدادوں کو لوٹا جارہا ہے، انھیں قتل کیا جارہا ہے، ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں اور انتظامیہ کی مدد سے ان کی عبادت گاہوں کو ان سے چھینا جارہا ہے۔یہاں تک کہ انھیں ووٹ دینے سے بھی روکا جارہا ہے۔“
اس دوران بیرسٹر اسدالدین اویسی نے بھی حسب سابق مسلمانوں سے متعلق کئی اہم موضوعات پر گفتگو کی اور اہم سوالات کئے۔انھوں نے دستور کی دفعات 26اور 29 کا حوالہ دیا جس میں مذہب اور زبان کے حقوق کا ذکر ہے۔اویسی نے مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت میں مساجد، وقف بورڈ، اردو اور مسلم ثقافت سمیت اقلیتی شناخت والی کئی چیزوں کو خطرہ لاحق ہے۔ حالانکہ آئین سچا ہے اور اس کی دفعہ 26مذہبی فرقوں کو مذہبی امور کے لیے اپنے ادارے قایم کرنے اور انھیں چلانے کا حق دیتی ہے۔ انھوں نے حکمراں طبقہ پر مسلمانوں کو الگ تھلگ رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلمانوں کو انتخاب لڑنے سے روکا جارہا ہے۔ ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ مسلمان انتخاب نہ جیت پائیں۔“
 پچھلے دس برس میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم مسائل کو اتنی شدومد کے ساتھ پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا ہے۔ بلاشبہ اس سے مسلمانوں کو بہت حوصلہ ملا ہے، ورنہ وہ سوچنے لگے تھے کہ سیکولر پارٹیوں نے ان کے ووٹ لینے کے باوجود ان سے گریز کی راہ اختیار کرلی ہے۔ دراصل 2014 میں جب بی جے پی نے غالب اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا تو اس کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہی تھے۔حکومت مسلمانوں کو بے گانہ اور ان کے ووٹوں کو ناکارہ بنانے کی حکمت عملی پر گامزن تھی۔ اپنی تمام کوششوں کے باوجود جب وہ مسلم ووٹوں کو ناکارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔مسلم مسائل پر اپوزیشن کی آواز فال نیک ہے۔