Jadid Khabar

کیا سپریم کورٹ کھدائی کی اجازت دے گا

Thumb

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ڈی این اے کی ایک نئی بحث چھیڑی ہے۔ انھوں نے چھ دسمبر سے ایک روز قبل ایودھیا پہنچ کر اپنے سیاسی مخالفین کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا کہ ”اجودھیا اور سنبھل میں جو کام بابر نے انجام دیا تھا، وہی کام آج ان کے سیاسی مخالفین بنگلہ دیش اور سنبھل میں کررہے  ہیں۔“سماجوادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو نے ان کے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ”وہ اپنا ڈی این اے جانچ کرانے کے لیے اس شرط پر تیار ہیں کہ خود وزیراعلیٰ بھی اپنے ڈی این اے کی جانچ کروائیں۔“ڈی این اے دراصل ایک ایسی جانچ ہوتی ہے جس سے کسی شخص کی اصل کا پتہ چلتا ہے۔مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ سنبھل اور بنگلہ دیش میں انتشار پھیلانے والوں کے بارے میں دنیا پہلے سے ہی جانتی ہے کہ ان کا ڈی این اے کیا ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ  نے یہ بات ایودھیا میں کہی ہے جہاں شرپھیلانے والوں نے اپنا ڈی این اے ایک بار نہیں کئی بار ثابت کیا ہے۔اسی ڈی این اے کے لوگ آج بنگلہ دیش میں بھی شرپھیلارہے ہیں۔بنگلہ دیش چونکہ ایک الگ ملک ہے اور ہم دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، اس لیے اس پر کچھ نہیں کہیں گے۔ ہاں البتہ سنبھل اور اس سے وابستہ تنازعہ کے پہلوؤں پر روشنی ضرور ڈالیں گے، کیونکہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور اس وقت قومی اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔
 آج ہم بات ایودھیا سے ہی شروع کریں گے، جہاں چھ دسمبر 1992کو بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کو 32سال گزرگئے۔اس بار بھی ہمیشہ کی طرح پورے ملک میں انصاف پسند قوتوں نے یوم سیاہ منایا۔ مجھے یاد ہے کہ جس وقت بابری مسجد کے خلاف شرانگیز مہم اپنے شباب پر تھی اور ملک میں  جارحانہفرقہ پرستی اپنے عروج پر تھی تو کچھ مسلم دانشوروں نے کہا تھا کہ”اگر ایک مسجد دینے سے امن قایم ہوسکتا ہے تو پھر بابری مسجد پر اپنے دعوے سے دستبردار ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔“جن دانشوروں نے اپنی سادہ لوحی کی بنیاد پر یہ مشورہ دیا تھا، انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ رام جنم بھومی مکتی آندولن چلانے والی آرایس ایس کی بغلی تنظیم وشوہندو پریشد کے پاس ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست تھی، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہمندروں کوتوڑ کر بنائی گئی ہیں۔آج یہ فہرست بڑھ کر کئی ہزار مسجدوں تک دراز ہوگئی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ آج جب ملک کی ہر تاریخی مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی خطرناک مہم چل رہی ہے تووہ دانشور کہاں ہیں۔المیہ یہ ہے کہ بابری مسجد کھونے کے بعد بھی امن قایم نہیں ہوسکا ہے۔بابری مسجد کے مقام پر عالیشان مندر تعمیر کرنے کے بعد شرپسندوں کاحوصلہ اتنا بڑھا ہے کہ وہ ہر تاریخی مسجد کو بابری مسجد سمجھ رہے ہیں۔مسلم دانشور بابری مسجد بازیابی تحریک کے بھی مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے اس قانونی مسئلہ کو سڑکوں پہ لاکر اچھا نہیں کیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ بابری مسجد کا مسئلہ محض قانونی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس مسئلہ کے پیچھے ہندوستان سے مسلم تہذیب کا نام ونشان مٹانے کی سازش کارفرما تھی۔ اس کا احساس لوگوں کو آج ہورہا ہے۔مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی گھناؤ نی سازش اجودھیا سے شروع ہوکر بنارس کی، متھرا، بھوج شالہ، سنبھل،بدایوں کی عالیشان مسجدوں سے ہوتی ہوئی درگاہ اجمیری اور دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد تک پہنچ گئی ہے۔یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا، کسی کو نہیں معلوم۔ رویش کمار نے درست ہی کہا ہے کہ یہ بھارت کھودو مہم ہمیں جنگلی دور میں لے جائے گی۔
 میرا خیال ہے کہ بابری مسجد بازیابی کی تحریک اس ملک میں مسلمانوں کی آخری مزاحمتی تحریک تھی اور اس میں شامل بیشتر لوگ مخلص بھی تھے۔ میں نے بابری مسجد کا تالاکھلنے سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک اس تحریک کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے، اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ اب اس جیسی تحریک ملک میں دوبارہ نہیں اٹھے گی اور نہ ہی ایسی قیادت جنم لے گی۔ آج ہر صبح ملک میں کسی نہ کسی تاریخی مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی جو خطرناک مہم چل رہی ہے، وہ اگر یونہی جاری رہی تو یہ ملک صدیوں پیچھے چلاجائے گاکیونکہ کھدائی صرف مسجدوں کی نہیں ہوگی بلکہ ان مندروں کے نیچے بھی کھدائی کی ضرورت پڑے گی، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بودھ مندروں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ بیان اترپردیش کے ایک سیاست داں سوامی پرشاد موریہ نے دیا ہے۔ راشٹریہ شوشت سماج پارٹی کے سربراہ سوامی پرشاد موریہ کا کہنا ہے کہ’’ہرمسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے والے غلط طریقہ اپنا رہے ہیں۔ اگر ہر مندر کو گراکر مسجد بنائی گئی ہے تو اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر بودھ مٹھ کو گراکر مندر بنائے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کیدار ناتھ، بدری ناتھ اور پوری بودھ مٹھ ہی تھے۔“
ہوسکتا ہے کہ سوامی پرشاد موریہ کے بیان کو رد کرنے کے لیے کوئی یہ کہے کہ یہ بودھ مٹھ کسی اور تہذیب کے آثار کومٹاکر بنائے گئے تھے اور اس طرح ہم مندروں اور مسجدوں کی تہوں میں جاتے جاتے اس دور میں پہنچ جائیں جب انسان بندر ہوا کرتا تھا اور انسانی تہذیب کا کوئی نام ونشان تک نہیں تھا۔ اب اسے کیا کہا جائے کہ ایک بھلے مانس نے سپریم کورٹ کے نیچے بھی کرشن مندر ہونے کی بات کہی ہے۔معروف صحافی نرنجن ٹاکلے نے یوٹیوب پر اپنے’اے جی نیوز‘ چینل پر ہفتہ کو جاری ایک ویڈیو میں درگاہ اجمیری کے سروے کے لیے دائر عرضی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”آٹھ سوسال سے زیادہ پرانی اجمیردرگاہ کے سروے کے لیے پٹیشن 113/سال قبل لکھی گئی ایک کتاب کی بنیاد پر داخل کی جاتی ہے اور عدالت اسے قابل اعتنا سمجھتے ہوئے سماعت کے لیے منظورکرکے نوٹس بھی جاری کردیتی ہے۔“انھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ ”میں نے بھی ایک کتاب پڑھی ہے۔ مہابھارت کی، اس کتاب میں لکھا ہے کہ دہلی کا پرانا نام ہستنا پورتھا۔ جب یہاں کرشن کی مدد سے پانڈوؤں نے کوروؤں پر فتح حاصل کرلی تو انھوں نے ہستنا پور میں شری کرشن کا ایک عالیشان مندر تعمیر کیا۔ میری معلومات کے مطابق وہ عظیم مندر سپریم کورٹ کے نیچے ہے۔ کیا سپریم کورٹ کھدائی کا حکم دے گا؟ کیا وہ اس کی اجازت دے گا؟“
ہمیں اپنے فاضل صحافی دوست کی اس بات سے اختلاف ہے کیونکہ سپریم کورٹ کی حیثیت آج بھی ایک مندر ہی کی ہے۔ وہ انصاف کا مندر ہے اور ملک کے مظلوموں کو اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک میں اس وقت مسجدوں کا سروے کئے جانے کی جو شرانگیز مہم چل رہی ہے، اس کے پیچھے خود سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندرچوڑ کا ہاتھ ہے جنھوں نے 2022 میں بنارس کی گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ یہ فیصلہ دینے سے قبل جب انھیں یاددلایا گیا کہ اس ملک میں ایک ایسا قانون بھی موجود ہے جو کسی بھی عبادت گاہ کی ہیئت تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو جسٹس چندرچوڑنے کہا تھا کہ”اس قانون میں کسی عبادت گاہ کی اصل کا پتہ لگانے کے لیے سروے کئے جانے پر کوئی روک نہیں ہے۔“
یہی دراصل وہ تبصرہ تھا جس نے مسجدوں کے سروے کا پٹارہ کھول دیا ہے۔واضح رہے کہ یہ  کوئیفیصلہ نہیں تھا بلکہ جسٹس چندرچوڑنے یہ بات اپنے زبانی تبصرے میں کہی تھی، لیکن اب ذیلی عدالتیں ان کے اسی تبصرے کو بنیاد بناکریکے بعد دیگرے مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف عرضیاں قبول کررہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور بارایسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوے نے کرن تھاپر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”مساجد کے سروے کی اجازت دے کر جسٹس چندرچوڑ نے آئین اور اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔“دشینت دوے نے اس انٹرویو کے دوران یہ شبہ بھی ظاہر کیا کہ وہ بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں گنیش پوجا کے لیے وزیراعظم کی چندرچوڑ کے گھر پر حاضری کا بھی حوالہ دیا۔ انھوں نے جسٹس چندرچوڑ کے اس بیان پر بھی سخت ناراضگی ظاہر کی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایودھیا کا فیصلہ ان پر بھگوان رام نے منکشف کیا تھا۔دشینت دوے کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ کر روپڑے کہ  ”اب اس ملک کا کیا ہوگا۔“
قابل ذکر بات یہ ہے کہ2019میں بابری مسجد معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل مسلم تنظیموں نے کہا تھا کہ انھیں عدالت کا فیصلہ منظور ہوگا۔ظاہر ہے انھیں ملک کی سب سے بڑی عدالت سے انصاف ملنے کی پوری امید تھی، لیکن عدالت نے یہ فیصلہ ملک میں امن قایم رکھنے کے لیے  حقائق اور شواہد کی بجائے آستھا کو ذہن میں رکھ کر دیا۔ملک میں امن قایم رکھنے کے لیے جس ناانصافی کی بنیاد ڈالی گئی تھی وہی اب ملک کے امن کو غارت کرنے کی نظیر بن گئی ہے۔سنبھل اس کی سب سے تازہ اور بدترین مثال ہے،جہاں انصاف قایم کرنے کی بجائے ریاست کے  وزیراعلیٰ ڈی این اے کی جانچ کرانے میں مصروف ہیں۔حالانکہ جن لوگوں نے سنبھل میں امن غارت کیا ہے ان کا ڈی این اے سب پر ظاہر ہے۔