Jadid Khabar

الیکشن کمیشن سوالوں کے گھیرے میں

Thumb

جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں ملک میں لوک سبھا انتخابات کے چھ مراحل پورے ہوچکے ہیں۔ اب صرف ایک مرحلہ باقی ہے اور اس کے بعد سب کو چارجون کا انتظار ہوگا جبکہ عام انتخابات کے نتائج برآمد ہوں گے۔ سبھی لوگ بے چینی کے ساتھ فیصلے کی اس گھڑی کا انتظار کررہے ہیں۔ ہر طرف سے یہی آوازیں آرہی ہیں کہ ملک میں تبدیلی کی زبردست لہر چل رہی ہے اور ظلم وجبر کادور ختم ہونے والا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سب کی نظریں الیکشن کمیشن پر بھی لگی ہوئی ہیں جس نے اپنی بعض مشتبہ کارروائیوں سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کردئےے ہےں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ پولنگ فیصد کے اعداد وشمار کا ہے۔الیکشن کمیشن پر الزام ہے کہ وہ ووٹنگ کے اعداد وشمار جاری کرنے میں مسلسل تاخیر سے کام لے رہا ہے اور پولنگ کا واضح فیصد سامنے نہیں آپارہا ہے ۔یہی وجہ سے کہ الیکشن کمیشن مسلسل اپوزیشن پارٹیوں کے نشانے پر ہے۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ ملک میں ووٹنگ کے بعد ووٹنگ فیصد میں اضافہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ انتخابات کے چار مرحلوں کے بعد ووٹنگ فیصد کے اعداد وشمار میں اضافہ ہوتا رہا اور ووٹوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ بڑھ گئی ۔ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا ہوئے اور انتخابی نظام کی شفافیت پرسوالات اٹھتے ہیں۔کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ سب سے پہلے الیکشن کمیشن ووٹنگ فیصد کے اعداد وشمار عام کرنے میں تاخیر کرتا ہے ۔پھر ان اعداد وشمار اور ووٹنگ کی شام کے اعداد وشمار میں ایک کروڑ سات لاکھ ووٹوں کا فرق ہے ، جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔الیکشن کمیشن کو ان سوالات کا جواب دینا چاہئے۔الیکشن کمیشن پر سوال اٹھنا فطری ہے ، کیونکہ لاکھوں ای وی ایم مشینوں کے غائب ہونے پر بھی الیکشن کمیشن کوئی واضح جواب نہیں دیتا۔“اے ڈی آر نے یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں اٹھایا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیا، جہاں الیکشن کمیشن نے باقاعدہ حلف نامہ داخل کرکے ووٹروں کی تعداد بتانے والے فارم کو عام کرنے کی مخالفت کی ۔ حلف نامے میں کہا گیا کہ پولنگ کے اعداد وشمار ظاہر کرنے والے فارم 17-Cکو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے سے گڑبڑ ہوسکتی ہے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا امکان ہے ،جبکہ الیکشن کمیشن کی یہ منطق کسی کے حلق سے نہیں اتررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کمیشن کی کارکردگی اور غیرجانبداری پر بار بارسوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ 
معروف وکیل کپل سبل نے گزشتہ جمعرات کو نئی دہلی میں باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر فارم 17-Cکیوں اپلوڈ نہیں کرتا؟ کپل سبل نے کہا کہ فارم17-Cاپلوڈ کرنے پر کمیشن کا جواب چونکادینے والا ہے ۔ اگر گنتی کے ووٹ اپلوڈ ہوچکے ہیں تو پولنگ ووٹ اپلوڈ کیوں نہیں کئے جاسکتے ؟ ایسے حالات میں کمیشن پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے ۔ کپل سبل کا کہنا ہے اگر شمار کئے گئے مجموعی ووٹ بتائے جارہے ہیں تو ڈالے گئے ووٹوں کو بتانے سے کیوں روک رہے ہیں۔اس دوران سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعہ کو اس معاملے کی سماعت کے دوران کوئی حکم جاری کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا ہے کہ چناو¿ کے پانچ مرحلے مکمل ہوچکے ہیں اور اس طرح ہم انتخابی عمل میں دخل نہیں دے سکتے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ایسا حکم صادر نہیں کرسکتے کہ الیکشن کمیشن ووٹنگ کے بعد ہر پولنگ اسٹیشن کا ووٹنگ ڈاٹا اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے ۔ عدالت نے کہا کہ” اعداد وشمار اپلوڈ کرنے کے کام میں لوگوں کو اس وقت لگانا مشکل ہوگا۔چناو¿ کے دوران عملی رویہ اختیار کیاجاناچاہےے۔“ اب اس معاملے کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ہوگی ۔الیکشن کمیشن نے عدالت میں اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عرضی صرف شبہ اور غلط الزامات پر مبنی ہے ۔ جبکہ عرضی گزار اے ڈی آر کے وکیل کا کہناتھاکہ خود الیکشن کمیشن نے ووٹنگ فیصد میں ترمیم کی ہے۔
اب ذرا ایک نظر فارم 17-Cپر ڈالتے ہیں ۔ یہ ہندوستان کے انتخابی عمل میں ایک اہم قانونی دستاویز ہے ، جو ہر پولنگ اسٹیشن پر اہم تفصیلات درج کرتا ہے ۔ ان میں استعمال شدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم)کے شناختی نمبر، پولنگ اسٹیشن کو تفویض کردہ رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد اور رجسٹر (فارم 17-A)کے مطابق ووٹ ڈالنے والے ووٹرں کی مجموعی تعداد کونوٹ کیا جاتا ہے ۔مزید برآں یہ ان ووٹروں کی تعداد کو نوٹ کرتا ہے جنھوں نے رجسٹر پر دستخط کرنے کے بعد ووٹ دینے یا ’نوٹا ‘کا انتخاب کیا ۔فارم سی کے ہر ای وی ایم پارٹ 2میں ریکارڈکئے گئے مجموعی ووٹ بطور خاص اہم ہیں کیونکہ اس میں رائے شماری کے دن حتمی رائے شماری کا ڈیٹا ہوتا ہے۔مسئلہ دراصل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نہ تو یہ ڈیٹا دینا چاہتا ہے اور نہ ہی اسے ویب سائٹ پر عام کرنا چاہتا ہے ۔واضح رہے کہ فارم17-Cمیں موجود ڈیٹا کا استعمال ووٹوں کی گنتی کے دن نتائج کی تصدیق کے لیے کیا جاتا ہے اور اسے امیدواروں کے ای وی ایم میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں سے ملایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد کسی بھی بے ضابطگی کی صورت میں متعلقہ ہائی کورٹ میں الیکشن پٹیشن بھی دائر کی جاسکتی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آئینی طور ایک خودمختارہ ادارہ ہے ۔ملک میں اس کی تاریخ شفافیت سے بھرپور رہی ہے۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس نے ماضی میںملک کے اندر ایماندارانہ انتخابات کرانے کا ریکارڈ قایم کیا ہے اور دنیا بھر سے واہ واہی لوٹی ہے ، لیکن ادھر جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے دیگر آئینی ادراوں کی طرح الیکشن کمیشن کی ساکھ بھی بری طرح متاثرہوئی ہے اور اس کی معتبریت پر ایسے سوال کھڑے ہونے لگے ہیں جو اس سے پہلے کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔الیکشن کمیشن کی بے عملی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ملک کی تاریخ میں پہلا الیکشن ہے جب انتخابی مہم کے دوران بدترین فرقہ وارانہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ کوئی اور نہیں خود ملک کے دوسرے بڑے آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص نے ایسی مذموم زبان کا استعمال کیا ہے کہ دنیا میں کس شایدہی کسی نے کیا ہو۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف منافرانہ مہم چلانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ انھیں’ درانداز‘ تک کہا اورمسلمانوںکے خلاف برادران وطن کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسلسل شعلہ فشانیاں کی ہیں، لیکن الیکشن کمیشن نے اس دوران ایک بار بھی یہ کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا مثالی ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے لیے امیدوار کو نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس معاملہ میں جب بہت زیادہ تنقیدیں ہوئیں تو الیکشن کمیشن نے نفرت کا پرچار کرنے والوں کو براہ راست کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے ان کی پارٹیوں کو نوٹس جاری کردیا، جس کا گول مول جواب دے کر بات رفع دفع کردی گئی ۔
بی جے پی امیدواروں نے تمام انتخابی ضابطوں کو پس پشت ڈال کر مسلسل رام مندر کے نام پر مہم چلائی۔ رام مندر کے جھنڈے لے کر مہم چلائی گئی ، لیکن الیکشن کمیشن نے کسی سے بھی بازپرس نہیں کی۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ الیکشن شروع ہونے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن میں ایسے لوگوں کو بٹھایا گیا تھا ، جو مثالی ضابطہ اخلاق کی بجائے حکمران وقت کے ماتحت تھے اور انھوں نے اپنی آزادانہ پوزیشن کو گروی رکھ دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو یہ کہنا پڑا کہ” الیکشن کمیشن کٹھ پتلی کی طرح برسراقتدار جماعت کے ایماءپر کام کررہا ہے۔“