Jadid Khabar

گیان واپی مسجد کیخلاف مذموم پروپیگنڈہ

Thumb

 گیان واپی مسجد کے احاطہ میں پوجا کی اجازت والی عرضی کوقابل سماعت تسلیم کرتے  ہوئے بنارس کے ضلع جج نے مسلم فریق کے تمام دلائل خارج کردئیے ہیں۔اس فیصلے پر جہاں ہندوفریق جشن منارہا ہے تو وہیں مسلمانوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہواہے اور اس کے پیچھے ان ہی طاقتوں کا ہاتھ ہے،جنھوں نے90/ کی دہائی میں رام جنم بھومی آندولن شروع کیا تھا۔ بظاہر اس آندولن کو ایک مذہبی تحریک کا نام دیا گیا تھا، لیکن اس کے سیاسی مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں تھے۔بعد کے دنوں میں یہ ثابت بھی ہوا کہ سنگھ پریوار نے ایودھیا کی تحریک بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے مقصد سے شروع کی تھی،جس میں اسے سوفیصد کامیابی ملی۔لیکن اب جبکہ بی جے پی پوری طرح مرکز کے اقتدار پر قابض ہے اور ملک کے بیشتر صوبوں میں بھی اس کی حکومت ہے تو آخروہ کون سا مقصد ہے جس کے تحت مسلم حکمرانوں کی تعمیرکردہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی خطرناک اور شرانگیزمہم چلائی جارہی ہے۔ظاہر ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہندوؤں کے اندر فخر کا احساس پیدا کرکے انھیں ایک فاتح قوم کے طورپر جینے کا حق فراہم کیا جائے اورمسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اس ملک کے اصل شہری نہیں ہیں بلکہ ان حملہ آوروں کے پسماندگان ہیں، جنھوں نے اس ملک پر ’آکرمن‘ کیا اور مندروں کو توڑکر مسجدیں بنائیں۔یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے مسلم دورحکومت کی مسجدوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہر مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ڈھونڈنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
 اجودھیا کی بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں کو ہی نشانے پر نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس فہرست میں ہرروز ایک نئی مسجد کا اضافہ ہورہا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ خطرناک مہم عدالتوں کے کاندھوں پر رکھ کر چلائی جارہی ہے اور عدالتیں دانستہ یا نادانستہ طورپر اس میں معاون بنتی جارہی ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ کاشی اور متھرا کی مسجدوں کے بعد اب بدایوں کی تاریخی جامع مسجد شمسی کے خلاف سول جج کی عدالت میں دائر مقدمہ بھی سماعت کے لیے منظورکرلیا گیا ہے۔گزشتہ ہفتہ بدایوں کی اس تاریخی جامع مسجدکو شیومندربتاتے ہوئے بھگوا عناصر نے یہاں پوجاکی اجازت طلب کی ہے۔اس کے ساتھ ہی متھرا میں شاہی عیدگاہ کے بعد ایک اور مسجد پر دعویٰ کیا گیا ہے۔اس معاملہ میں بھی عدالت نے سنی سینٹرل وقف بورڈ کو نوٹس جاری کردیا ہے۔اس طرح مستقبل میں بابری مسجد تنازعہ جیسے تباہ کن تنازعات کو روکنے کے لیے 1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جو قانون منظور کیاگیا تھا، وہ خودبخود بے عمل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی عرضیوں پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے، لیکن جس تیزی کے ساتھ مسجدوں پر عدالتوں میں دعوے دائر کئے جارہے ہیں، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اس قسم کا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔ خود بنارس کے ضلع جج نے گیان واپی مسجد کے احاطہ میں پوجا کی اجازت طلب کرنے سے متعلق عرضی کو سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ مذکورہ قانون اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے اس معاملہ میں دائر ایک دوسرے مقدمہ کی6/اکتوبر سے یومیہ سماعت شروع ہوگی جس میں گیان واپی احاطہ میں مسلمانوں کاداخلہ ممنوع کرنے اور گیان واپی مسجد کا پورا احاطہ ہندوؤں کے سپردکرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس میں نام نہاد شیولنگ کی پوجا کی اجازت بھی طلب کی گئی ہے۔ عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر مسلم فریق نے6/اکتوبر تک اپنا جواب داخل نہیں کیا تو ان کاموقع ختم کرتے ہوئے عدالتی کارروائی آگے بڑھے گی۔اس صورتحال پر منتظرقایمی کا کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
عدل سے منہ موڑکر جب منصفی ہونے لگے
سخت کافرجرم بھی اب مذہبی ہونے لگے
آپ کو یادہوگا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کو سونپنے کا فیصلہ سناتے ہوئے واضح طورپر کہا تھاکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد مندر توڑکربنائی گئی تھی۔اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کسی مندر کو توڑکر بنائی گئی ہے۔ 
واضح رہے کہ1937 کے دین محمدبنام حکومت ہند مقدمہ میں بھی گیان واپی کو مسجد تسلیم کرتے ہوئے اس میں نمازکا حق مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔صدیوں سے گیان واپی مسجد میں مسلسل نماز ادا ہورہی ہے، اس لیے اس پر عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون نافذ ہوتا ہے۔1944 میں گیان واپی مسجد کو وقف بورڈ میں درج کراتے ہوئے صوبائی سرکار نے گزٹ جاری کیا تھا۔کاشی وشوناتھ مندر کے احاطہ میں زمین کے تبادلہ میں گیان واپی کو مسجد کے طورپر ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ گیان واپی مسجد کی ملکیت مغل حکمراں اورنگزیب کے نام تھی اور ان ہی کی طرف سے دی گئی زمین پر1669یہ مسجد تعمیر ہوئی تھی۔المیہ یہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اورنگزیب پر مندروں کو مسمار کرنے کے الزامات عائد کرتی ہیں، جبکہ ان کے بارے میں معتبر مورخین نے لکھا ہے کہ انھوں نے مندروں کو جائیدادیں عطا کیں اور انھیں عطیات فراہم کئے۔ بی این پانڈے سمیت متعدد غیرجانبدار مورخین نے اپنی کتابوں میں ا س کے ثبوت پیش کئے ہیں، لیکن اس وقت ملک میں جو لہر چل رہی ہے اس میں کوئی معقول بات کرنا یا سچ کا اظہار کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنارس ضلع جج کے حالیہ فیصلے پر مسلم تنظیموں اور قائدین نے تو ردعمل ظاہر کیا ہے، لیکن ابھی تک کسی سیاسی جماعت یا لیڈر نے یہ نہیں کہا ہے کہ مسجدوں کو یوں متنازعہ بنانے اور ان کی تاریخی حیثیت کو مشتبہ بنانے کی یہ تحریک ملک کو خانہ جنگی میں جھونک دے گی۔ 
 سبھی کو معلوم ہے کہ90کی دہائی میں جس وقت وشوہندو پریشد نے انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ ’رام جنم بھومی مکتی آندولن‘ شروع کیا تھا توملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی تھی۔ 6/دسمبر 1992کو ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت اسی کشیدگی اور اشتعال انگیزی کا نتیجہ تھی، جس کے کسی بھی مجرم کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ جبکہ اس کے نتیجے میں ملک کے اندرسینکڑوں خونریزفسادات ہوئے اور ہزاروں بے گناہ انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔اربوں روپوں کی املاک کا نقصان ہوا۔ اسی نقصان اور منافرت سے بچنے مستقبل میں بچنے کے لیے 1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون بنایا گیا تھا جس میں یہ بات طے کردی گئی تھی کہ اب اس قسم کا کوئی تنازعہ ملک میں کہیں بھی اور کبھی پیدا نہیں ہوگا، لیکن بابری مسجد کی اراضی سپریم کورٹ کی طرف سے رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپے جانے کے بعد تو مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم نے خطرناک حد تک زور پکڑلیا اور شرپسند ہرروز کسی نہ کسی تاریخی مسجد کے نیچے مندر ہونے کی بات کہہ کر سنسنی پھیلا رہے ہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ کام عدالتوں کے سہارے انجام دیا جارہا ہے جوملک کے نظام انصاف کے لیے انتہائی مضر ہے۔