Jadid Khabar

تاجروں کو بجٹ میں ٹیکس سے راحت

Thumb

پونے 22 جون (یو این آئی) صنعت اور خدمات کے شعبے سے وابستہ کاروباری افراد نے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ذریعہ پیش کئے جانےوالے  2024-25 کے مکمل بجٹ میں ٹیکس میں راحت اور گڈز اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرحوں میں کمی کی امید ظاہر کی ہے۔یہاں مارواڑی چیمبر آف کامرس، انڈسٹریز اینڈ ایجوکیشن (اے ایم سی سی آئی ای) کے قومی صدر راجیش اگروال نے ہفتہ کو یہاں کہا کہ آنے والے بجٹ کے پیش نظر صنعت کاروں نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھنا شروع کردیئے ہیں۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی صدارت میں جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ ہفتہ کو دہلی میں ہو رہی ہے، جہاں جی ایس ٹی کو آسان بنانے اور کئی شعبوں میں شرحوں کو کم کرنے پر بات چیت ممکن ہے۔مسٹر اگروال نے کہا کہ جی ایس ٹی کونسل کی آخری میٹنگ اکتوبر 2023 میں ہوئی تھی۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد نئی حکومت میں  جی ایس ٹی کی یہ پہلی میٹنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے پیش نظر آئندہ مکمل بجٹ میں انکم ٹیکس کی سب سے نچلی سطح میں آنے والے لوگوں کو راحت دینے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس نظام کو آسان بنانے کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیرقیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت نے انتخابات سے قبل فروری 2024 میں اپنے موجودہ اخراجات کے لئے  فنڈ  کے لیے صرف ووٹ آن اکاؤنٹ پیش کیا تھا۔ اس سے قبل یہ خیال تھا کہ نئی حکومت کو انتخابات کے بعد اپنا مکمل بجٹ پیش کرنے کا موقع دینے کی روایت کو برقرار رکھا جائے۔نئی حکومت کا پہلا عام بجٹ جولائی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔مسٹر اگروال نے کہا کہ ہمارا مطالبہ 43 بی (ایچ) ایکٹ پر نظرثانی کرنے کا ہے، جو اس سال سے مائیکرو، میڈیم اور اسمال انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای) کے رجسٹرڈ تاجروں پر عائد کیا گیا ہے۔ اس میں تاجروں کو خریدے گئے سامان کی ادائیگی 45 دن کے اندر کرنی ہوگی تاہم تاجر ادائیگی کے لیے 90 دن کا وقت مانگ رہے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس سے کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ مسٹر اگروال نے کہا، خوردہ تاجروں کے لیے سستی شرح سود آسان ہونی چاہیے تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک دوسرے سے مقابلہ کرسکیں۔اے ایم سی سی آئی ای کے نائب صدر نریندر گوئل اور مہاراشٹر کے صدر منیش توارا والا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ سیمنٹ، اسٹیل اور گاڑیوں پر جی ایس ٹی کو موجودہ 28 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کیا جائے۔