Jadid Khabar

اسلامی مدرسوں پر نشانہ

Thumb

اسلامی شریعت کو طلاق ثلاثہ کی آڑ میں بدنام کرنے کی شرانگیز مہم ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ شرپسندوںنے دینی تعلیم کے مراکز کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء کو تحفظ اور اسلامی شریعت کو تسلسل فراہم کرنے والے دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکزقرار دے کر انہیں بند کرنے کا مطالبہ پہلے تو سنگھ پریوارکے لوگ کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے مفاد پرست عناصر بھی اس صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ اپنے معمولی سیاسی فائدے کے لئے پوری ملت کو بدنام کرنے والے ضمیر فروش مسلمانوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے لیکن موجودہ حکومت میں ان کی اہمیت اچانک بڑھ گئی ہے۔ اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے انتہائی متنازع اور بدنام زمانہ چیئرمین نے حال ہی میں وزیراعظم نریندرمودی اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ اسلامی مدارس میں چونکہ دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے لہٰذا انہیں بند کرکے ان کی جگہ کانوینٹ اسکول کھولے جانے چاہئے۔ مذکورہ چیئرمین کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ کروڑوں روپے کی وقف جائیداد کو ہڑپنے اور اسے کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کے سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کررہے ہیں اور ان کی بدعنوانیوں کے خلاف سی بی آئی کی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑرہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی کھال بچانے کے لئے حکمراں جماعت کی پناہ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے اور کپڑوں کی طرح سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے مذکورہ چیئرمین پر گرفتاری کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ اپنی بدکاریوں کی سزا سے بچنے کے لئے وہ حکمراں جماعت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی روش پر گامزن ہیںتاکہ وہ سنگھ پریوار کی آنکھوں کا تارہ بن جائیں اور ان کے گناہوں پر پردہ پڑجائے۔ اس سے پہلے انہوں نے مسلمانوں سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ بابری مسجد پر اپنے دعوے سے دستبردار ہوکر اس کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندو انتہا پسندوں کو سونپ دیں۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے حکمراں طبقے سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے ایودھیا میں رام مندر کے ناجائز ڈھانچے میں پوجا بھی کی تھی اور آرتی میں بھی حصہ لیا تھاجس سے ان کے عقیدے کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ شیعہ وقف بورڈ کے متنازع چیئرمین کی خود اپنے فرقے میں جو حیثیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لکھنؤ کے سرکردہ شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد سمیت کئی سرکردہ شیعہ علماء نے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کے شرانگیز بیان کی مخالفت میں سنی لیڈروں سے زیادہ شیعہ فرقے کے لوگ پیش پیش ہیں۔ متنازع چیئرمین کے بیان کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے بعد پورے ملک میں شیعہ اور سنی علماء کے درمیان بے نظیر اتحاد نظرآرہا ہے اور وہ ایک زبان ہوکر اس کی مذمت کررہے ہیں۔ شیعہ اور سنی دونوں ہی علماء نے متنازع چیئرمین کے خلاف قانونی کارروائی کا پرزور مطالبہ کیا ہے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کی اپیل کی ہے۔ 

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان میں اسلامی مدارس دین کے قلعوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مدرسوں کو قائم کرنے کے لئے علمائے دین نے نہ اپنی ہڈیاں گھلائیں اور انہیں خون جگر سے سینچاہے۔ آج یہ دینی مدارس ہندوستان میں اسلام کی سربلندی اور بقاء کا سب سے بڑا مرکز گردانے جاتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے تمام مسلکوں میں دینی مدارس کی یکساں اہمیت ہے اور سبھی لوگ ان کے تسلسل، بقاء اور ترقی کے لئے فکر مند نظرآتے ہیں۔ ہندوستان میں دینی مدارس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے کئی دینی مدارس شہرۂ آفاق حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مدرسوں کے بانیوں اور فارغین نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے۔ ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں اور انہیں کالے پانی کی سزا بھی ملی۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی پوری تاریخ ان مدرسوں کی احسان مند ہے۔ دینی مدارس نے ہمیشہ بلند اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کا درس دیا ہے۔ جہاں دنیاوی تعلیم کے مراکز اخلاقی تربیت اور شعوری تربیت سے عاری ہیں تو وہیں دینی مدارس اپنے طلباء کو بااخلاق اور باکردار بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جب مفاد پرست عناصر سنگھ پریوار کی شہ پاکر دینی مدرسوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور انہیں دہشت گردی سے جوڑتے ہیں تو پوری ملت تڑپ اٹھتی ہے۔ یوپی شیعہ وقف بورڈ کے متنازع چیئر مین کے بے ہودہ بیان سے پورے ملک میں بے چینی اور اضطراب کا ماحول ہے۔ خیال کیاجاتا ہے کہ یہ بیان ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت دلایاگیا ہے۔ ظاہر ہے مدرسوں کے تعلق سے جو باتیں سنگھ پریوار اور حکمراں جماعت کے لیڈران ایک عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں، وہ اب ایک ایسے شخص سے کہلوائی گئیں ہیں جو مسلمانوں جیسا نام رکھتا ہے۔ ظاہر ہے سلمان رشدی جیسا نام رکھنے سے کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا۔ 
موجودہ عہد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو مفاد پرست عناصر ارباب اقتدار کا دامن تھامنا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ سنگھ پریوار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اقلیتی امور کے موجودہ مرکزی وزیر کے بارے میں آپ کو یاد ہوگا کہ وہ رام جنم بھومی مکتی آندولن کے دوران بابری مسجد کے خلاف ایسے ہی شرانگیز بیانات دیا کرتے تھے جیسا کہ اس وقت شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین نے دیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کو مسلم قائد بنانے کی مہم چل رہی ہے اور سنگھ پریوار سے قربت رکھنے والے بعض اردو اخبارات اس میں پیش پیش ہیں۔ سنگھ پریوار کی قربت حاصل کرنے کا سب سے آسان نسخہ مسلمانوں کو نشانہ بناناہے۔ حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سرسید کی بصارت پر منعقدہ ایک سیمینار کے دوران یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر نے یہ کہہ کر اپنی مٹی پلید کرائی کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو سرسید کے ویژن کے تناظر میں بابری مسجد برادران وطن کو سونپ دینی چاہئے اور طلاق ثلاثہ ، گائے اور عبادت گاہوں کے لاؤڈاسپیکر جیسے مسائل کو کھلے ذہن کے ساتھ حل کرنے کی پیش قدمی کرنی چاہئے جس سے مسائل مزید پیچیدہ نہ ہوں۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مذکورہ پروفیسر کی موقع پر موجود دیگر مقررین نے اچھی خاصی کلاس لی ۔بعد کو معلوم ہوا کہ پروفیسر موصوف عنقریب ریٹائر ہونے والے ہیں اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بی جے پی کی مرکزی یا صوبائی حکومت میں اپنے لئے کوئی عہدہ تلاش کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں۔ 
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں جب سے بی جے پی برسراقتدار آئی ہے، تب سے وہاں مسلمانوں کا جینا دوبھرہوگیا ہے اور ہرروز نت نئے بہانوں سے مسلم اداروں ، مدرسوں اور مکاتیب کوآزمائش میں مبتلا کیاجارہا ہے۔ مثال کے طورپر گزشتہ دنوں یوپی کے وزیر برائے اقلیتی بہبود لکشمی نارائن چودھری نے اعلان کیا تھا کہ ریاست کے 2300مدارس کو اس بنیاد پر بند کردیاجائے گاکیونکہ انہوں نے مدرسہ بورڈکو اپنی تفصیلات پیش نہیں کی ہیں۔ ویب سائٹ پر تفصیلات نہ دینے کی پاداش میں ان تمام مدارس کو فرضی قرار دینے کی تیاری چل رہی ہے تاکہ انہیں بند کرنے کی راہ ہموار ہوجائے۔ اترپردیش میں 19ہزار ایک سو آٹھ مدارس ہیں جن میں 16ہزار آٹھ سو آٹھ مدرسہ بورڈ سے رجسٹرڈ ہیں۔قبل ازیں مدرسوں میں قومی تہواروں کے موقع پر قومی ترانہ بجانے اور اس کی باقاعدہ ویڈیو گرافی پیش کرنے کو بھی لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ایسا نہ کرنے والے مدرسوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی گئی۔ اتنا ہی نہیں مدرسوں کی مذہبی چھٹیوں کی تعداد کم کی جارہی ہے جبکہ دیگر مذاہب کے تہواروں پر مدارس کو بند رکھنے پر زور دیا جارہا ہے۔ مدارس کی اختیاری چھٹیاں بھی کم کی جارہی ہیں۔ یوگی سرکار میں اس قسم کے اقدامات مدرسوں کو ہراساں کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں۔ یوپی شیعہ وقف بورڈ کے متنازع چیئرمین کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس شرانگیز بیان کے خلاف ممبئی کے مولانا مستقیم اعظمی نے قانونی نوٹس جاری کرتے ہوئے متنازع چیئرمین سے غیر مشروط معافی اور 20کروڑ ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔