Jadid Khabar

سپریم کورٹ کے ہاتھوں ”بلڈوزر جسٹس“کا انہدام

Thumb

آخرکار ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ان عناصر کے منہ پر طمانچہ رسید کرہی دیا، جو ملک میں  انارکی پھیلاکر کمزور وں کا جینا حرام کررہے تھے۔اقتدار کے گھمنڈ میں چور ان لوگوں نے دستور اور قانون کو ٹھینگا دکھاکر ملک میں ’بلڈوزر جسٹس‘ کی ایک ایسی خطرناک راہ  اختیار کی تھی جس کی زدمیں ہر اس انسان کا آشیانہ تھا، جو ان کو پسند نہیں ہے۔ان ظالموں کے طرزعمل کو دیکھ کر یوں محسوں ہورہا تھا کہ اس ملک میں آئین اورقانون نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہ گئی ہے اور یہاں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کاقانون نافذ ہوگیا ہے۔مگر اب تاخیر سے ہی سہی سپریم کورٹ نے ان کے منہ پرایسا زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے جس کی گونج دورتک اور دیر تک سنائی دے گی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بلڈوزر کارروائی کو جنگل راج قرار دیتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا اور ایسا کرنے والی سرکاروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ خود جج کا کردار ادا نہ کریں۔عدالت عظمیٰ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک بھر میں بلڈوزر کارروائی کے تعلق سے رہنما ہدایات جاری کیں۔ سب سے اہم بات یہ کہی گئی کہ”آپ ملزمان ہی نہیں بلکہ سزایافتہ مجرموں کے گھروں پر بھی بلڈوزر نہیں چلاسکتے، کیونکہ یہ کسی خاندان کو اجتماعی سزا سے دوچار کرنے جیسا عمل ہوگا۔“ اس سلسلہ میں عدالت نے ہندی شاعرپردیپ کی ایک نظم کا حوالہ بھی دیا، جس کے الفاظ یوں ہیں ”اپنا گھر ہو، اپنا آنگن ہو،اس خواب میں ہرکوئی جیتا ہے، انسان کے دل کو یہ چاہت ہے کہ ایک گھر کا سپنا کبھی نہ چھوٹے۔“عدالت نے اپنے فیصلے کی ابتداء میں ہی اس نظم کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ ”گھر ہر شخص کی امیدوں کی علامت ہوتی ہے۔“بہت پہلے بشیربدر نے بھی میرٹھ فساد میں اپنا گھر جلائے جانے پر اس مضمون کا ایک شعر اس انداز میں کہا تھا۔
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں 
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں 
انسان کی زندگی میں گھر کی جو اہمیت ہے اس کا احساس وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے سروں پر چھت نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وقت جولوگ اقتدارمیں ہیں،ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو مجرد زندگی گزراتے ہیں اور انھوں نے زندگی میں کبھی بیوی بچوں کو پالنے کا تجربہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گھر کے بنیادی احساس سے آشنا نہیں ہیں۔اسی کے زیراثرکمزوروں پر ظلم ڈھانا اور ان کے وجود کو حرف غلط کی طرح مٹانا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔ وہ دستور کی پاسداری کا حلف اٹھانے کے باوجود قدم قدم پر اس کی پامالی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
جی ہاں، یہ ہیں حکمراں جماعت کے وہ لوگ ہیں جنھیں سوسال تک نفرت اور عداوت کی فصلیں اگانے کے بعد جب اقتدار نصیب ہوا ہے تو وہ ہر اس شے کو مٹادینا چاہتے ہیں، جو انھیں پسند نہیں ہے۔ مگر وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اس دنیا کا نظام بظاہر انسانوں کے ہاتھوں میں نظر آتاہے، لیکن اس کا اصل مالک کوئی اور ہے اور جب زمین پر ظلم وستم بڑھتاہے تو خدا کا عتاب ضرور نازل ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں بلڈوزر ایکشن سے گھر چھیننے کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ”کسی کی عمارت کو منہدم کرنے والے بلڈوزر کا خوفناک منظر انارکی اور لاقانونیت کی یاددلاتا ہے۔ ہمارے دستوری طریقے اس قسم کے قانون کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے۔“ جسٹس بی آر گوائی کی قیادت والی بنچ نے کہا کہ”اگر انتظامیہ جج کے کردار میں آکر بغیر کسی قانونی کارروائی کے کسی شخص کے گھر کو منہدم کرتی ہے تو یہ اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔اگر فطری انصاف کی پیروی نہیں کی جاتی ہے تو اس سے انارکی پیدا ہوسکتی ہے جہاں صرف طاقت کا ہی بول بالا ہوتا ہے۔“عدالت نے کہا کہ ”دستوری اقدار کے تحت اقتدار کا اس قسم کا غلط استعمال برداشت نہیں کیا جاسکتا۔انتظامیہ کو اس قسم کی کارروائی کی اجازت دینا قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔ دستور میں کاموں کی واضح تقسیم کی گئی ہے اور یہ طاقت کی تقسیم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ کسی بھی ملزم کو قصوروارقراردینے کا کام صرف عدالت کا ہے۔“عدالت نے بلڈوزر کارروائی میں شریک افسران کو متنبہ کیا ہے کہ اس قسم کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی کسی بھی نقصان کی بھرپائی ان کی تنخواہوں سے کی جائے گی۔ 
سپریم کورٹ نے گزشتہ بدھ کو بلڈوزر کی من مانی کارروائی پر ہمیشہ کے لیے روک لگاتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ مظلوموں کے زخموں پر مرہم کے ساتھ ساتھ ظالموں کے لیے ایک تازیانہ عبرت بھی ہے، کاش وہ اسے محسوس کرسکیں۔ملک میں پچھلے ایک عرصے سے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں یہ طرز ایجادکی گئی تھی کہ جہاں کسی مسلمان پر کوئی الزام لگا، اس کے اگلے ہی لمحہ اس کے گھر پر بلڈوزر پہنچ گیا اور سب کچھ مسمار کرکے اس کے ماں باپ، بیوی بچوں اور دیگر متعلقین کو سڑک پر پھینک دیا گیا۔جو ریاستیں اس میں پیش پیش تھیں ان میں اترپردیش،مدھیہ پردیش،راجستھان اورگجرات   کے نام قابل ذکر ہیں۔ پچھلے دنوں مدھیہ پردیش میں جب ایک مسلمان تاجر کی دس کروڑ کی لاگت کی عالیشان کوٹھی منہدم کی گئی تھی تو بلڈوزر چلانے والوں کی نفرت اور عداوت کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب وہاں کھڑی ہوئی قیمتی کاروں کو بھی چکناچور کردیا گیا تھا۔ مذکورہ مسلمان کا قصور یہ تھا کہ اس نے اس گروپ کی قیادت کی تھی جو توہین رسالت کے ایک واقعہ کے خلاف مقامی پولیس کو میمورنڈم دینے گیا تھا۔اس گروپ کی پولیس کے ساتھ تکرار ہوئی اور پتھراؤ بھی ہوا جس کے نتیجے میں اگلے ہی دن مذکورہ مسلمان کی عالیشان کوٹھی کو زمیں دوز کردیا گیا۔ اس سے قبل اترپردیش کے ایودھیا میں ایک مسلمان تاجر کی پچاس دوکانوں کے کمپلیکس پر محض اس لیے بلڈوزر چلا تھا کہ اس کی بیکری میں کام کرنے والا ایک ملازم کوکسی کمسن لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔ 
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک میں اب تک جن مکانوں اور دکانوں کو بلڈوزر چلاکر نیست ونابود کیا گیا ہے ان میں نوّے فیصد مکان مسلمانوں کے تھے اور یہ اس نفرت کا شکار ہوئے جو حکمراں جماعت کے لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ ہے۔اب سپریم کورٹ نے جو رہنما ہدایات جاری کی ہیں، ان میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر اس کی ہدایات کی پیروی نہیں کی جاتی ہے تو متعلقہ افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اگر انہدام غلط طریقے سے کیا جاتا ہے تو افسران کو جائیداد کے نقصان کی بھرپائی کرنی ہوگی۔سپریم کورٹ کی گائڈ لائن جاری ہونے کے بعد امید کی جارہی ہے کہ اب مکمل انصاف قایم ہوگا۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ اب تک جن بے گناہوں کے مکان یا دکانیں غیرقانونی طریقے سے منہدم کی گئی ہیں، ان کے نقصان کا معاوضہ کون ادا کرے گا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے لیے صوبائی حکومتوں اور ان افسران کو ذمہ دار قرار دیا جائے جنھوں نے کسی قانونی اختیار کے بغیر لوگوں کے مکانوں اور دکانوں کو مسمار کیا اور انھیں بے گھر اور بے درکرکے ہمیشہ کے لیے برباد کردیا۔ ان لوگوں کی بازآبادکاری کی طرف بھی عدالت کو توجہ دینی چاہئے۔ جہاں تک غیرقانونی تعمیرات کا معاملہ ہے، اس کے لیے بھی سپریم کورٹ نے رہنما ہدایات جاری کردی ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ اگر ایسا کہیں ہے تو اس کو گرانے سے پہلے دوہفتہ پہلے نوٹس دینا ہوگااور اس کے بعد مالک مکان کو غیرقانونی ڈھانچہ گرانے کے لیے مزید دوہفتہ کی مہلت دینی ہوگی۔اگر کہیں ناجائز طریقہ سے انہدامی کارروائی ہوگی تو اس کا نقصان متعلقہ افسران سے وصول کیا جائے گا۔