تبدیلی مذہب کیس میں مولانا کلیم صدیقی اور محمدعمر گوتم کو عمر قید کی سزاسنائے جانے سے ملی حلقوں میں تشویش کی لہر ہے۔جماعت اسلامی اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت(رجسٹرڈ)نے باقاعدہ بیان جاری کرکے اس واقعہ کو انتہائی تکلیف دہ اور قانون کا انتہائی غلط استعمال قرار دیا ہے۔جس قانون کے تحت یہ سزائیں سنائی گئی ہیں وہ آئین کی دفعات 25اور 28 سے متصادم ہے جس میں تمام ہندوستانی شہریوں کو نہ صرف اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے بلکہ اس کی تبلیغ اور توسیع کا بھی حق دیا گیا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب سے بی جے پی نے اقتدار پر مضبوط گرفت حاصل کی ہے تب سے یہاں اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کی راہیں مسدود کردی گئی ہیں اور ان لوگوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی جو’گھر واپسی‘ کے نام پر مسلمانوں کو ملحد بنانے میں مصروف ہیں۔ ایسے شرپسندوں کو حکومت اور قانونی مشنری کی پوری سرپرستی حاصل ہے۔جس کا تازہ ثبوت مدھیہ پردیش سے آنے والی ایک ویڈیو ہے جس میں چیتن سنگھ نامی ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 39مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرواکے ان کی شادیاں ہندولڑکوں سے کروائی ہیں۔ اس معاملے پر ہم آگے چل کرروشنی ڈالیں گے، پہلے مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کو سنائی گئی عمر قید کی سزا پر بات کرتے ہیں۔
گزشتہ بدھ کو لکھنؤ میں این آئی اے اور اے ٹی ایس کی خصوصی عدالت نے غیرقانونی تبدیلی مذہب معاملے میں مولانا کلیم صدیقی اورمحمدعمر گوتم سمیت بارہ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگر چار ملزمان کو دس دس سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ان سبھی پرغیرقانونی تبدیلی مذہب میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ وطن دشمنی کے الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں۔مولانا کلیم صدیقی اور دیگر ملزمان کو ایک دن قبل ہی عدالت نے قصوروار قرار دینے کے بعد ہی جیل بھیج دیا تھا۔واضح رہے کہ تین سال قبل ستمبر2021میں جبری مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، لیکن گزشتہ سال انھیں ہائی کورٹ سے ساتھ ضمانت مل گئی تھی۔مولانا کلیم صدیقی کے خلاف پولیس اورسرکاری مشنری کی حد سے بڑھی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھ کر پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا شکار کرنے کی تیاری ہورہی ہے اور انھیں تبدیلی مذہب مخالف قانون کی شکار گاہ پر قربان کیا جائے گا۔
سبھی جانتے ہیں کہ مولانا کلیم صدیقی ایک سنجیدہ اسلامی اسکالر ہیں اور ان کا بنیادی کام مذاہب کے درمیان مکالمہ قایم کرنا اور برادران وطن کے ذہنوں میں اسلام کے تعلق سے پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے۔لیکن ان پر جن الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا، وہ بادی النظر میں حقیقت سے بہت دور معلوم ہوتے ہیں۔ ان پر لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے اور تبدیلی مذہب کا غیر قانونی سنڈیکیٹ چلانے جیسے الزامات شروع سے ہی لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اتررہے تھے۔ یوں بھی کسی شخص کو لالچ دے کر اس کا مذہب تبدیل کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور کوئی بھی شخص جو اپنے مذہب کا سچا پیروکار ہے، وہ کسی لالچ اور جبر کے تحت دوسرا مذہب اختیار نہیں کرتا، لیکن ہمارے ملک میں اس وقت جو نظام چل رہا ہے اس میں کسی بھی مسلمان کو قانون کے جال میں پھنساناسب سے آسان کام ہے۔ پوری قانونی مشنری اور پولیس اسی کام میں لگی ہوئی ہے۔
ملک میں سرگرم فسطائی طاقتوں نے مسلمانوں کو پھنسانے کے لیے نت نئی اصطلاحات ایجاد کررکھی ہیں اور ہر سرگرمی کو جہاد سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ’لوجہاد‘ کی عجیب وغریب اصطلاح ایسے مسلمانوں کے لیے وضع کی گئی ہے جو فرقہ پرستوں کی نظر میں ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنساکر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور پھر ان سے شادی کرتے ہیں۔ حالانکہ’محبت‘ اور ’جہاد‘کا آپس میں کوئی تال میل ہی نہیں ہے۔ محبت اور جہاد دوقطعی مختلف اور متضاد اصطلاحیں ہیں۔اسی طرح تبدیلی مذہب کے تعلق سے طرح طرح کا مذموم پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی لالچ میں آکر مذہب کیوں تبدیل کرتے ہیں۔ کیا اپنے مذہب کے ساتھ ان کی وابستگی اتنی کمزور ہے کہ کوئی بھی انھیں معمولی لالچ دے کر گمراہ کرسکتا ہے۔آخر دیگر مذاہب کے لوگ اس فریب میں آکر اپنا مذہب کیوں تبدیل نہیں کرتے۔ درحقیقت اپنے مذہب میں موجود چھواچھوت جیسی خرابیوں کو مٹانے کی بجائے فرقہ پرست عناصر دوسروں کو الزام دینا چاہتے ہیں۔ ماضی میں اکثریتی فرقہ کے جن جن لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے، وہ زیادہ تر پسماندہ ذاتوں کے لوگ تھے، جن کے ساتھ ان کے ہم مذہب ناروا سلوک کرتے ہیں اور انھیں انسانوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔اس کے باوجود حکومت کی نگاہ میں صرف وہی مسلمان مجرم قرار دئیے جاتے ہیں جو کسی بھی سطح پر برادران وطن کے درمیان اسلام کے تعارف میں مصروف ہیں جن کے ہاتھوں پر بعض لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، لیکن وہ شرپسند کبھی حکومت کو نظر نہیں آتے جو زورزبردستی اور ظلم کی بنیاد پر مسلمانوں کو ہندو بناکر ان کا بدترین استحصال کرتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت مدھیہ پردیش کے مندسور ضلع سے آنے والی وہ ویڈیو ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ’بھگوا لو ٹریپ‘غریب مسلمانوں کو لالچ دے کر ان کی تبدیلی مذہب کے کام میں اعلانیہ شریک ہے۔جبکہ بی جے پی اقتدار والی بیشتر ریاستوں میں تبدیلی مذہب کا قانون نافذہے لیکن جہاں کہیں بھگوا تنظیموں یا افرادکے ذریعہ ایسی غیر قانونی حرکتیں کی جاتی ہیں وہاں قانونی مشنری آنکھیں موند لیتی ہے۔مندسور سے ایک ویڈیو بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہورہا ہے جس میں بھگوا بریگیڈ کا ایک لیڈر چیتن سنگھ ایک ٹی وی چینل پر اعلانیہ دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے 44 مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرایا جن میں 39مسلم لڑکیوں کی شادیاں ہندو نوجوانوں سے کرائی ہیں۔ اتنا ہی نہیں اس نے یہ بھی کہا کہ دونابالغ مسلم بچوں کا مذہب بھی اس نے تبدیل کرایا ہے، جو کہ قانون کے تحت سخت جرم ہے، لیکن اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی کوئی امید نہیں ہے۔اگر اس قسم کا دعویٰ غلطی سے بھی کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو اب تک ملک میں طوفان مچ گیا ہوتااور دعویدار کو سزائے موت دئیے جانے کے مطالبے ہورہے ہوتے۔جیسا کہ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہورہا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا کلیم صدیقی اور محمدعمر گوتم اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے ہاتھ پر بعض ہندوؤں نے اسلام بھی قبول کیا ہے۔ خود محمدعمر گوتم پہلے ہندو تھے اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اس کی پناہ میں آئے۔ لیکن ان لوگوں پر زورزبردستی اور لالچ دے کر اسلام قبول کرانے کے الزامات یقینا بے بنیاد ہیں۔پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں نے انھیں پھنسانے کے لیے خاصی محنت کی ہے۔ اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ وہ قانون کی گرفت سے باہر نہ نکل سکیں۔ اسی لیے ان کے خلاف ملک سے بغاوت جیسی دفعات جوڑی گئیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ تبدیلی مذہب کا کوئی غیر قانونی ریکٹ چلارہے تھے تو اس میں ملک دشمن سرگرمیوں کا پہلو کہاں سے آگیا۔ ان کے خلاف ملک سے غداری، مذہبی منافرت پھیلانے جیسی کئی دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔خصوصی عدالت کے جج وویکا نند شرن ترپاٹھی نے مولانا کلیم صدیقی،محمدعمر گوتم اور ان کے دیگر ساتھیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ایک گروہ بناکر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو روپے، شادی اور ملازمت دلانے کا لالچ دے کر سازش کے تحت غیرقانونی طورپر مذہب تبدیل کرانے میں ملوث تھے۔ان پر غیر ملکی فنڈنگ کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کیس کی تحقیقات دہشت گردی کے معاملات کی تحقیقات کرنے والی قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے) اور انسداد دہشت گردی دستے (اے ٹی ایس)کو سونپی گئی تھیں۔ لہٰذا انھوں نے اسی نقطہ نظر سے اس پورے معاملے کی چھان بین کی اور اس مقدمہ میں ملک سے غداری کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کا دستور ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے علاوہ اس کی توسیع وتبلیغ کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن جب سے ملک میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے تب سے تبدیلی مذہب کو ایک سنگین جرم کے زمرے میں شامل کرلیا گیا ہے۔ بی جے پی اقتدار والی سبھی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں۔لیکن ان کا نفاذ صرف مسلمانوں کے خلاف ہورہا ہے۔ اگر کہیں بھگوا تنظیمیں اور افراد مسلمانوں کو ملحد بنارہے ہیں تو انھیں قانونی مشنری کی طرف سے پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے جس کا تازہ ثبوت مدھیہ پردیش کے مندسور کا واقعہ ہے، جہاں 39مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کر کے ہندونوجوانوں سے ان کی شادیاں کئے جانے کے دعوے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔