Jadid Khabar

گائے کے محافظ یا انسانیت کے دشمن؟

Thumb

 آج کل ہریانہ کے ایک ہندونوجوان آرین مشرا کے بہیمانہ قتل کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ 19/ سال کایہنوجوان نویں کلاس کا طالب علم تھااور اپنے دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر تفریح کرنے نکلا تھا۔ اس دوران نام نہاد گؤرکشکوں نے اس کا پیچھا کیا اور گائے کا اسمگلر سمجھ کر اس کے جسم میں کئی گولیاں پیوست کردیں۔بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے ان گؤرکشکوں کا سربراہ انل کوشک فی الحال سلاخوں کے پیچھے ہے، جہاں مقتول آرین مشرا کے والد سیانند مشرانے اس سے ملاقات کرکے پوچھا ہے کہ ”آخر اس نے اس کے بیٹے کی جان کیوں لی؟“ تو اس نے جواب دیا کہ”اس نے آرین مشرا کو مسلمان سمجھ کر گولی ماری تھی، لیکن اب وہ ایک برہمن کو مارنے پر پشیمان ہے۔“ فریدآباد کی مقامی جیل کا دورہ کرنے کے بعد سیانند مشرا نے ”دی پرنٹ“ کو بتایا کہ ”ان کے بیٹے کے قاتل انل کوشک نے ان کے پاؤں چھوئے اور معافی مانگی۔میں نے کوشک سے پوچھا کہ ”تم ایک مسلمان کو کیوں ماروگے؟تم کارکے ٹائر پر گولی مارسکتے تھے یا پولیس کو بلاسکتے تھے۔ قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔ کوشک کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں تھا۔“
ہمیں آرین مشرا کے والد سیانند مشرا سے ہمدردی ہے کیونکہ ان کا جواں سال بیٹاگؤرکشکوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہے، لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کے قاتل سے جو سوال پوچھے ہیں، انھیں پوچھنے میں یقینا دیر کردی۔ اگر وہ یہی سوال اس سے پہلے گؤرکشکوں کے ہاتھوں وحشیانہ طورپر قتل کئے گئے ناصر اور جنید کے معاملے میں پوچھتے تو شاید ان کے بیٹے کی جان بچ سکتی تھی۔کیونکہ ہریانہ میں گؤرکشکوں کی دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ وہاں گؤ رکشکوں کی مساوی حکومت قایم ہے اوروہ جب چاہتے ہیں گائے کا اسمگلر سمجھ کر کسی کی بھی جان لے لیتے ہیں۔اس معاملے میں انھیں حکومت اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔اکثر پولیس ہی انھیں گؤرکشکوں کو سبق سکھانے کے لیے کہتی ہے۔ ورنہ ان کے پاس ہتھیار اور قانون توڑنے کی ہمت کہاں سے آئی۔ ہریانہ میں اب تک گؤ رکشکوں نے جتنے بھی مسلم نوجوانوں کو گائے کا اسمگلر قرار دے کر موت کے گھاٹ اتاراہے،ان میں پولیس نے محض رسمی کارروائی انجام دی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی قاتل کو سزا نہیں مل سکی ہے۔آرین مشرا کے قتل میں ملوث گؤرکشکوں کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ ان کا پولیس سے رابطہ تھااور وہ اس طرح کی وارداتوں کو پولیس کی مدد سے انجام دیتے تھے۔اس سلسلے میں انگریزی روزنامہ ”انڈین ایکسپریس“ نے چونکا نے والے انکشافات کئے ہیں۔
 آرین مشرا کے قتل کے بعد دوسرا نمبر صابرملک کا تھا، جومغربی بنگال کا رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ صابر ملک کوآرین مشرا کے قتل کے چارروز بعد اس شبہ کی بنیادپر بے دردی سے قتل کردیا گیا کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے۔صابر ملک کے بہیمانہ قتل پر افسوس ظاہر کرنے کی بجائے ہریانہ کے وزیراعلیٰ نائب سنگھ سینی نے جو بیان دیا تھا، اس سے بھی نام نہاد گؤرکشکوں کو حکومت کی سرپرستی کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ”ہم نے گائے کی حفاظت کے لیے سخت قانون بنائے ہیں۔ اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کو گائے سے بے پناہ عقیدت ہے اور اس سے ان کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ جب ایسا واقعہ سامنے آتا ہے تو گاؤں کے لوگ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔“اس کے ساتھ وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں اس بات پر بھی زور دیتا ہوں کہ لنچنگ کے واقعات افسوس ناک ہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔‘ سچ پوچھئے تو وزیراعلیٰ سینی کے بیان کا پہلا حصہ ہی ان کے جذبات کا ترجمان ہے اور آخر میں انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ محض خانہ پری ہے۔جب کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کی سوچ ایسی ہو تو وہاں قانون کی حکمرانی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
 کون نہیں جانتا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں گؤ رکشکوں نے اپنی مساوی حکو مت قایم کررکھی ہے۔ اگر کوئی واقعی شخص قانون شکنی کا ملزم ہے تو اسے سزا ضرورملنی چاہئے۔ ہمارے قانون میں ہر جرم کی سزا متعین ہے اور اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔ لیکن اگر کسی معاملے میں سزا دینے کا اختیار شرپسندوں کو دے دیا جائے تو ملک میں وہی سب کچھ ہوگا جو اس وقت بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہورہا ہے۔ وہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کے غنڈوں نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے۔ ہجومی تشدد روزمرہ کی چیز بن گئی ہے۔ کسی بھی مسلمان کو گائے کاٹنے یا گائے کھانے کا قصوروار قرار دے کر اس کی جان لی جاسکتی ہے یا اسے بری طرح زدوکوب کیا جاسکتا ہے۔ جس روز ہریانہ کے چرخی دادری میں صابرملک کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، اسی روز مہاراشٹر کے ناسک ضلع سے یہ دلدوز خبر بھی آئی تھی کہ وہاں ٹرین میں سفر کررہے ایک باریش مسلمان کو گائے کا گوشت لے جانے کے شبہ میں زدوکوب کیاگیا۔ جلگاؤں ضلع کے باشندے حاجی اشرف منصوری اپنی بیٹی کے پاس کلیان جارہے تھے۔ پولیس نے بزرگ مسافر پر حملے کے الزام میں جن تین نوجوانوں کو گرفتار کیا ان کی پہچان آکاش، نیلیش اور جیئش کے طورپر ہوئی، لیکن ان کو اگلے ہی روز ضمانت بھی مل گئی۔ کیونکہ ریلوے پولیس نے ان پر اتنی معمولی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا کہ انھیں شاید ہی کوئی سزا مل سکے۔ایسے معاملات میں ہرصوبے کی پولیس کا رویہ ایک جیسا ہے۔ خود ہریانہ میں صابر ملک سے پہلے جنید اور ناصر کو انتہائی وحشیانہ انداز میں قتل کیا جاچکا ہے مگر ان کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں اور کسی کو کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ اس کے برعکس اگر بی جے پی کے اقتدار والی ریاست میں کوئی مسلمان کسی معمولی الزام میں بھی گرفتار ہوجائے توتمام قانونی ضابطوں کو پس پشت ڈال کر پہلے اس کا گھر مسمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔
 ہریانہ کے چرخی دادری میں صابر ملک کے وحشیانہ قتل کے معاملے میں پولیس نے سات ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مغربی بنگال حکومت نے صابر ملک کے پسماندگان کی مالی مدد کرنے کے علاوہ اس کی بیوہ کوسرکاری ملازمت دے دیہے۔البتہ ہریانہ سرکار نے اس سلسلہ میں کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ آرین مشرا کے والد نے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ”آخر کسی کو اس طرح گولی مارنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟“ہمیں سیانند مشراسے پوری ہمدردی ہے کیونکہ ان کا جواں سال بیٹا نام نہاد گؤرکشکوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاہے۔ مگر ہم انھیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی نوجوان کو ان نام نہاد گؤرکشکوں نے اپنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ اس سے پہلے اس ملک میں درجنوں مسلم نوجوان نام نہاد گؤرکشکوں کی دہشت گردی اور بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن وہ چونکہ مسلمان تھے اس لیے کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا۔ آرین مشرا کیونکہ ایک ہندو نوجوان تھا اس لیے یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ ظاہر ہے جب ملک کے اندرقانون کی بجائیغنڈوں کی حکمرانی ہوگی اور قانون نافذ کرنے کاکام قانونی مشنری موالیوں کے حوالے کردے  گی تو اس ملک میں اسی طرح صابر ملک اور آرین مشراموت کے منہ میں جاتے رہیں گے۔ جب ہریانہ کا وزیراعلیٰ اور سرکاری مشنری ہی نام نہاد گؤرکشکوں کے سیاہ کارناموں کا دفاع کرے تو وہاں نہ صابر ملک محفوظ ہے اور نہ آرین مشرا۔ نفرت کے ایجنڈے کا یہی انجام ہے۔