آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما روز ہی کوئی ایسا بیان دیتے ہیں جس سے ان کے مسلم دشمن عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ظاہر ہے جب کسی ریاست کا وزیراعلیٰ ہی مسلم دشمنی کے جنون میں گرفتار ہو تو وہاں کی سرکاری مشنری کی جانبداریوں جو حال ہوسکتا ہے، اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔آسام میں اس وقت مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنے عروج پر ہے اور اس میں سب سے بڑا کردار وہاں کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرماکے بیانات کا ہے جنھوں نے مسلم دشمنی کامنافع بخش کاروبار کھول رکھا ہے۔ وہ اپنے دستوری اور قانونی فریضے کو پس پشت ڈال کر مسلم دشمنی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ انھیں ہر وقت مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ کچھ بولنے یا کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔پچھلے ہفتہ انھوں نے یکے بعد دیگرے ایسے بیانات دئیے ہیں جن سے ان کے ذہن میں سرایت کرگئے مسلم دشمنی کے زہر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اگر فوری طورپر ان کے ذہن کواس زہر سے آزاد نہیں کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ ان پر مالیخولیا کے دورے نہ پڑنے لگیں۔
وزیراعلیٰ سرما کے تازہ ترین فرمان کے مطابق آسام اسمبلی کے ممبران اور مسلم ملازمین کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے دی جارہی دوگھنٹے کی وہ چھٹی ختم کردی گئی ہے، جو 87سال سے چلی آرہی تھی۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ”یہ قدم نوآبادیاتی غلامی کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ یہ روایت 1937 میں مسلم لیگ کے سید سعداللہ نے شروع کی تھی۔“اس سے قبل انھوں نے مسلمانوں کے عائلی قوانین میں مداخلت کرتے ہوئے مسلمانوں کے شادی اور طلاق سے متعلق قانون کو منسوخ کرنے کا بل اسمبلی سے پاس کرایا تھا۔لیکن ان تمام امور میں ان کا سب سے زیادہ قابل اعتراض بیان وہ ہے جس میں انھوں نے اپنی بدترین مسلم مخالف ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ”مسلمانوں کو آسام پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔“
ریاست میں امن وامان کی صورتحال پر اپوزیشن کی طرف سے اسمبلی میں پیش کی گئی تحریک التوا کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”نشیبی آسام کے لوگ بالائی آسام کی طرف کیوں جائیں؟ اس لیے کہ میاں مسلمان آسام پر قبضہ کرلیں۔ ہم مسلمانوں کو آسام پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔“ وزیراعلیٰ کا یہ بیان ہندوستان کے دستور اور قانون کے صریحاً خلاف ہے، کیونکہ ہندوستان کا کوئی بھی باشندہ پورے ملک میں کہیں بھی بودوباش اختیار کرنے کے لیے آزاد ہے۔ یہ تو محض ایک ہی ریاست میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا معاملہ ہے۔وزیراعلیٰ نے کمال بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”میں تو جانبدار رہوں گا، آپ کیا کرسکتے ہیں۔ میں مسلمانوں کو آسام پر قبضہ نہیں کرنے دوں گا۔“
وزیراعلیٰ کے ایسے ہی مسلم دشمن بیانات کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہاں ان کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔اس الزام کے بعدکہ مسلمان بالائی آسام میں نقل مکانی کرکے وہاں ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ہندوشدت پسند تنظیموں نے مسلمانوں کو علاقہ خالی کرنے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی ہے۔ واضح رہے کہا بالائی آسام جن آٹھ اضلاع پر مشتمل ہے، ان میں تیز پور، لکھیم پور، ڈبرو گڑھ، جورہاٹ اور کالیا پور اہمیت کے حامل اضلاع ہیں۔ آسام ہندوستان کی پہلی ایسی ریاست بن گئی ہے جہاں سے مسلمانوں کو نکل جانے کی کھلی وارننگ دی گئی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں رانچی میں آسام کے وزیراعلیٰ نے غیرقانونی دراندازی کے سوال پر میڈیاسے کہا تھا کہ ”ڈیموگرافی میں تبدیلی میرے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر آج چالیس فیصد ہوگئی ہے جبکہ1951میں یہ صرف12فیصد تھی۔ ہم نے کئی اضلاع کھودئیے ہیں۔ یہ میرے لیے کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔“
اگر آپ قانون اور ضابطوں کی بات کریں تو ایک وزیراعلیٰ جو قانون اور دستور کی پاسداری کا حلف اٹھاکر عہدہ سنبھالتا ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست کے تمام باشندوں کو خواہ ان کا مذہب اور عقیدہ کچھ بھی ہے ان کے جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور کسی کے ساتھ مذہب، ذات پات،عقیدے یا رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ کرے۔ یہ تمام باتیں اس حلف نامہ میں تحریر ہوتی ہیں جنھیں پڑھ کر کوئی بھی وزیراعلیٰ اقتدار کی کمان سنبھالتا ہے، لیکن جب سے بی جے پی کو ہندوستانی سیاست میں عروج حاصل ہوا ہے تب سے یہی ہورہا ہے کہ جو کوئی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے وہ اگلے ہی روز آئین کی دھجیاں بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ اس میں وزیراعظم سے لے کر مرکزی کابینہ کے وزراء اور صوبائی وزرائے اعلیٰ سبھی شامل ہیں۔ آپ کویاد ہوگا کہ لوک سبھا کے چناؤکے دوران کس طرح وزیراعظم نریندر مودی مسلمانوں کانام لے کر اپنے انتخابی جلسوں میں نفرت پھیلارہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ”کانگریس اوبی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے اور میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دوں گا۔“ انھوں نے بار بار مسلمانوں کا نام لے کر انھیں نشانہ بنایا۔ وہ تو بھلا ہو رائے دہندگان کا انھوں نے بی جے پی کو اسی اترپردیش میں سبق سکھادیا جہاں رام مندر کی تعمیر کی وجہ سے اسے بہت امیدیں تھیں۔ بی جے پی خود اس ایودھیامیں بھی چناؤ ہارگئی جس کی بنیاد پر اس نے اپنی انتخابی حکمت عملی تیار کی تھی۔
یوں تو بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کے وزرائے اعلی آئے دن ایسے کام کرتے رہتے ہیں جن سے مسلمانوں کوذہنی، نفسیاتی اور جسمانی چوٹ پہنچتی ہے۔کبھی ان کے مکانوں اور جائیدادوں پر بلڈوزر چلاکر اور کبھی انھیں فرضی مقدمات میں ماخوذ کرکے ان کا جینا حرام کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں اترپردیش اور مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ کو خاص مہارت حاصل ہے۔ لیکن مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ان کے خلاف بے ہودہ بیان بازی کرنے میں جو مہارت آسام کے وزیراعلی ٰ ہیمنت بسوا سرما نے حاصل کرلی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ان کے لب ولہجے کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ ان پر مسلم دشمنی کے دورے پڑتے ہیں اور انھیں اس وقت تک چین نہیں پڑتا جب تک وہ مسلمانوں کے دستوری حقوق پر ڈاکہ نہ ڈال لیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ آسام ملک میں مسلم آبادی کی دوسری بڑی ریاست ہے۔پہلا نمبر تو کیرل کا ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان ہیں جبکہ دوسرا نمبر آسام کا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی مجموعی آبادی کا ایک تہائی ہے اور اگر وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما کے بیان پر یقین کریں تو اب وہاں مسلم آبادی چالیس فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔سرما کو اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلمان وہاں اکثریت میں آکر آسام پر قبضہ کرلیں گے اور یہی وہ خوف ہے جس کے تحت انھوں نے اس وقت مسلمانوں کے خلاف جارحانہ مہم چھیڑ رکھی ہے اور باضابطہ اسمبلی میں یہ بیان دیا ہے کہ ”میں جانبداری برتوں گا اورمیاں مسلمان کوآسام پر قبضہ نہیں کرنے نہیں دوں گا۔“
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آسام کی مسلم آبادی ہمیشہ سے ہی سیاست دانوں کے لیے ایک مسئلہ رہی ہے۔پہلے تو یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ آسام میں مقیم بیشتر مسلمان بنگلہ دیش سے آئے ہیں، لہٰذا انھیں کھدیڑ دیاجانا چاہئے، لیکن جب سپریم کورٹ کی نگرانی میں وہاں کی آبادی کا سروے کیا گیا تواس پروپیگنڈے کی ہوا نکل گئی۔آسام کے مسلمانوں کاہندوستان کا اصل باشندہ ثابت ہوجانے کے باوجود ان کے خلاف جارحانہ اورمنافرانہ مہم مسلسل جاری ہے۔ اس معاملے میں موجودہ وزیراعلیٰ نے تو تمام حدوں کو ہی پار کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے مسلم مخالف بیان کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کررہی ہیں۔آسام پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر بھوپن کمار بورہ کا کہنا ہے کہ ”سرما اسمبلی کے اندراور باہر فرقہ وارانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔اگر سرما کو فوری طورپر گرفتار نہیں کیا گیا تو وہ سیاسی فائدے کے لیے ریاست میں فساد جیسی صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔سینئر وکیل اور ممبر راجیہ سبھا کپل سبل نے بھی سرما کے بیان کو خالص فرقہ وارانہ زہر گھولنے والا بیان قرار دے کر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون کس طرح اپنا کام کرتا ہے۔