اٹھارہویں لوک سبھا کے ممبران کی حلف برداری کے ساتھ نئی پارلیمنٹ میں گہماگہمی شروع ہوگئی ہے۔ حالانکہ اس بار منظر نامہ بدلا ہوا ہے لیکن حکمراں بی جے پی اپنا پرانا ایجنڈا ہی نافذ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ نئی لوک سبھا کا آغاز ایک سرکردہ مسلم ممبرپارلیمنٹ کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہوا ہے۔ لوک سبھا میں مسلمانوں کی سب سے مضبوط آواز سمجھے جانے والے بیرسٹر اسدالدین اویسی کی حلف برداری کے دوران ’جے فلسطین‘ کہنے کو اتنا بڑا جرم قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بات ان کی لوک سبھا رکنیت کے خاتمہ کے مطالبہ تک جاپہنچی ہے۔گزشتہ دس برس کے دوران پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی آواز کو دبانے کی جو کوششیں ہوئی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔مسلم مسائل سے پہلو تہی اور مسلمانوں کو حاشیہ پر پہنچانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ یہ کوششیں اس حد تک کارگر ہوئی ہیں کہ جن مسلمانوں کی آبادی ملک میں 14 فیصد ہے، لوک سبھا میں ان کی نمائندگی چار فیصد تک رہ گئی ہے۔
اگر آپ اٹھارہویں لوک سبھا میں مسلم نمائندگی کا جائزہ لیں تو کوئی اطمینان بخش تصویر نہیں ابھرتی۔ اس بار543لوک سبھا نشستوں میں سے 24 مسلم امیدوار کامیاب ہوکر پارلیمنٹ پہنچے ہیں۔ حالانکہ یہ تعداد سترہویں لوک سبھا کے مقابلے میں زیادہ مایوس کن نہیں ہے کیونکہ پچھلی بار 26مسلم امیدوارہی کامیاب ہوئے تھے۔ اس طرح اس باردو ارکان کی کمی ہوئی ہے،لیکن اگر آپ مجموعی صورتحال کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ یہ تعداد مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کافی مایوس کن ہے۔2011ی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلم آبادی کا تناسب 14فیصد ہے، لیکن لوک سبھا کے 543 ممبران میں مسلمانوں کی حالیہ کامیابی تقریباً چار فیصد ہے۔اس بار مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر پورے ملک میں 78 مسلم امیدوار میدان میں تھے اور ان میں سب سے زیادہ مسلم امیدوار بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی نے کھڑے کئے تھے جن کی تعداد 32 تھی، لیکن قسمت دیکھئے کہ ان کا کوئی ایک بھی امیدوار اٹھاروہویں لوک سبھا میں نہیں پہنچ سکا۔ مسلمان ہی نہیں کسی دوسرے فرقہ کا بھی کوئی بی ایس پی امیدوار نہیں جیت سکا۔ اپنی ناکامی کا ٹھیکرا انھوں نے حسب عادت مسلمانوں کے سریہ کہتے ہوئے پھوڑا ہے کہمناسب نمائندگی دینے کے باوجود مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، لہٰذا مستقبل میں وہ سوچ سمجھ کر ہی مسلمانوں کو ٹکٹ دیں گی۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی ناکامی کے لیے مسلمانوں کو موردالزام قرار دیا ہے، اس سے قبلکے انتخابات میں بھی وہ یہی کرچکی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے زیادہ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ عوام ان کی اس چال کو سمجھ چکے ہیں، اس لیے انھیں ووٹ نہیں دیتے۔
حالیہ پارلیمانی الیکشن میں سب سے زیادہ مسلم امیدوار کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں، جن کی تعداد سات ہے۔اس کے بعد پانچ امیدوار مغربی بنگال سے ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر چنے گئے ہیں جبکہ اترپردیش سے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر چار مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ تیسرا نمبر انڈین یونین مسلم لیگ کا ہے جس کے تین مسلم امیدوار کیرل سے منتخب ہوئے ہیں۔نیشنل کانفرنس کے ٹکٹ پر دو اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر ایک امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار دوآزاد مسلم امیدواروں نے بھی کامیابی درج کرائی ہے،جن کا تعلق ریاست جموں وکشمیر سے ہے۔ کامیاب 24 مسلم امیدواروں میں 21 کا تعلق انڈیا اتحاد سے ہے۔ بی جے پی نے اس مرتبہ صرف ایک مسلم امیدوار کو کیرل سے میدان میں اتارا تھا جس کی ضمانت ضبط ہوگئی ہے۔سب سے زیادہ مسلم امیدوار مغربی بنگال سے کامیاب ہوئے ہیں، جن کی تعداد پانچ ہے۔
کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے مسلم امیدواروں میں طارق انور بہار کی اپنی روایتی سیٹ کٹیہار سے کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار اسی سیٹ سے کامیاب ہوچکے ہیں۔ دوسرے رکن شفیع پرامبل ہیں جو کیرل کے وڈاکارہ حلقے سے پہلی بار چنے گئے ہیں۔سہارنپور سے عمران مسعود کو پہلی بار کامیابی ملی ہے،جوسینئرپارلیمنٹرین قاضی رشید مسعود مرحوم کے بھتیجے ہیں۔لکشدیپ سے اس بار سابق مرکزی وزیرپی ایم سعید مرحوم کے بیٹے حمداللہ سعید نے کامیابی کا پرچم لہرایا ہے۔ وہ اس سے قبل بھی یہاں سے منتخب ہوچکے ہیں۔آسام کے دھوبری حلقہ سے کانگریس امیدوار رقیب الحسن نے عطر کے تاجر بدرالدین اجمل کو دس لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی ہے،جوپورے ملک میں سب سے بڑی شکست ہے۔ بہار کے کشن گنج سے محمد جاوید نے اپنی سیٹ برقرار رکھی ہے۔ مغربی بنگال کی مالدہ سیٹ سے عیسٰی خاں چودھر ی نے کامیابی حاصل کی ہے،جو سابق مرکزی وزیر غنی خاں چودھری مرحوم کے قریبی عزیزہیں۔
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے سب سے اہم امیدوار سابق کرکٹ کھلاڑی یوسف پٹھان ہیں، جنھوں نے بہرام پور سے کانگریس صدر ادھیر رنجن چودھری کو شکست دی ہے۔ان کے علاوہ جنگی پورہ سے خلیل الرحمن اور مرشد آباد سے ابوطاہر خاں جیتے ہیں۔ ابوطاہر خاں نے سی پی ایم کے سینئر لیڈر محمدسلیم کو ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی ہے۔ ترنمول کانگریس کی چوتھی امیدوار ساجدہ احمد ہیں جنھوں نے اولوبیرا سے کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ سابق مرکزی وزیر اور سینئر ترنمول لیڈر مرحوم سلطان احمد کی بیوہ ہیں اور اس سے قبل بھی لوک سبھا کی ممبر رہ چکی ہیں۔ترنمول کانگریس کے پانچویں کامیاب امیدوار نورالحسن ہیں۔
اترپردیش سے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر جو چار مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ان میں غازی پور سے افضال انصاری، رامپور سے مولانا محب اللہ ندوی، کیرانہ سے اقراء حسن اور سنبھل سے ضیاء الرحمن برق شامل ہیں۔ افضال انصاری اس سے قبل بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔مولانا محب اللہ ندوی پہلی بار لوک سبھا کے لیے چنے گئے ہیں، وہ پارلیمنٹ کی مسجد کے امام ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مسجد کے امام نے لوک سبھا الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔مغربی یو پی کے کیرانہ حلقہ سے کامیابی حاصل کرنے والی اقراء حسن نے انگلینڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہونے والی اپنے خاندان کی چوتھی رکن ہیں۔ان سے پہلے ان کے دادا چودھری اخترحسن، والد منورحسن، والدہ تبسم حسن لوک سبھا کے رکن رہ چکے ہیں جبکہ ان کے بھائی ناہیدحسن یوپی اسمبلی کے رکن ہیں۔
سنبھل سے کامیاب ہونے والے نوجوان ممبر ضیاء الرحمن برق، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق مرحوم کے پوتے ہیں۔اس سے قبل وہ کندرکی حلقہ سے ممبراسمبلی تھے۔کیرل سے انڈین یونین مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے تین امیدواروں میں ای ٹی محمد بشیر، عبدالصمدصمدانی اور کے نواز کنی شامل ہیں۔ کشمیر سے نیشنل کانفرنس کے کامیاب امیدواروں میں میاں الطاف احمد اور آغا سید روح اللہ مہدی شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس مرتبہ سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ آزاد امیدوار انجینئر شیخ عبدالرشید کے ہاتھوں دولاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست کھاگئے ہیں۔لداخ میں بھی آزاد امیدوار محمدحنیفہ نے کامیابی حاصل کی ہے۔مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے ایک بار پھر حیدرآباد سے کامیابی کا پرچم لہرایا ہے،جن کی بے باکی اور بے خوفی کے خلاف بی جے پی ارکان نے آسمان سرپہ اٹھا رکھا ہے۔’جے فلسطین‘