لوک سبھا کے ساتویں اور آخری مرحلہ کی پولنگ مکمل ہونے کے ساتھ ہی دوماہ سے زیادہ عرصے تک چلنے والا انتخابی عمل پورا ہوچکا ہے۔اب سب کی نظریں چارجون پر مرکوز ہیں،جب عام انتخابات کے نتائج برآمد ہوں گے۔اس طویل اور تھکا دینے والے انتخابی عمل کی یوں تو کئی باتیں ایسی ہیں جن کا یہاں ذکر کیا جانا چاہئے، مگر ہم اس مضمون میں حالیہ چناؤ کے دوران مسلمانوں کے سیاسی استحصال کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہی تھے جنھیں انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے اور انھیں حرف غلط ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ کام کسی اور نے نہیں خود وزیراعظم نریندر مودی نے کیا۔انھوں نے اپنی پوری مہم کے دوران مسلمانوں کو نرم چارے کی طرح چبانے کی کوشش کی اورمسلمانوں کے خلاف ایسی ایسی باتیں کہیں جو اس سے پہلے کسی چناؤ میں کسی نے نہیں کہی تھیں۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ملک کا عدالتی نظام اتنا بے بس اور لاچار ہوچکا ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مجرمانہ انداز میں نشانہ بنانے والوں کے خلاف حرکت میں نہیں آتا۔ قانونی مشنری کو تو چھوڑ دیجئے، وہ تو اپنے آقاؤں کے اشاروں پر عمل کرتی ہے، لیکن انصاف کے نظام کی کیا مجبوری ہے کہ وہ کھلی اشتعال انگیزی اور نفرت خیزی کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ اس بار کے الیکشن میں یہ بھی محسوس کیا گیا کہ الیکشن کمیشن جیسا خودمختار ادارہ پوری طرح گھٹنوں کے بل چل رہاہے۔ اگر یہ صورتحال یونہی قایم رہی تو وہ دن دور نہیں جب اس ملک جمہوریت، سیکولر ازم اور قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکل جائے گا۔
الیکشن کے دوران جھوٹے وعدے کرکے عوام کو لبھانا سیاست دانوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ ہرپارٹی کا انتخابی منشور جھوٹ کا ہی پلندہ ہوتاہے۔حکمراں جماعت بی جے پی نے کہا تھا کہ وہ اپنی ’بہترین کارکردگی‘ کی بنیاد پرچناؤ لڑے گی، اسی لیے شاید مودی کی گارنٹیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا، لیکن جب بی جے پی انتخابی مہم میں شامل ہوئی تو اس نے اپنی اسی منافرانہ سیاست پر تکیہ کیا جس کے لیے وہ جانی جاتی ہے۔ بی جے پی کو جب یہ محسوس ہوا کہ رام مندر کا افتتاح جس چناوی مقصد سے گیا تھا، وہ پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اور ملک کے عوام روزی روٹی، روزگار، مہنگائی اور لاقانونیت پر سوال اٹھارہے ہیں تو اس نے اپنی مہم کا رخ مسلمانوں کی طرفموڑدیا تاکہ ہندوؤں کو دوسرے انداز میں ورغلایا جاسکے۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس مذموم مسلم دشمن مہم کی کمان خود وزیراعظم نریندر مودی نے سنبھالی اور ایسا کرتے ہوئے انھوں نے کوئی شرمندگی اور ندامت تک محسوس نہیں کی۔ بعد میں ان کی پوری پارٹی اس مہم میں شریک ہوگئی۔بقول شاعر
حیا، شرم وندامت اگر کہیں ملتی
تو ہم خریدتے اپنے اک مہرباں کے لیے
جی ہاں اس چناؤ میں حکمراں بی جے پی اور اس کے لیڈروں کے نشانے پر صرف اور صرف مسلمان ہی تھے، جنھیں مختلف زاویوں سے نشانہ بنایا جارہا تھا۔ پارٹی کے عام لیڈران ہی نہیں بلکہ خود ملک کے وزیراعظم بھی مسلمانوں کو پانی پی پی کر کوس رہے تھے۔ یوں محسوس ہوتا رہا کہ مسلمان ان کے سرکاتاج چھین لینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس الیکشن میں سب سے زیادہ بے چارے مسلمان ہی تھے،جنھیں وہ سیکولر پارٹیاں بھی منہ نہیں لگارہی تھیں جن کی جھولیاں انھوں نے ووٹوں سے بھردی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کا اصل نشانہ کانگریس تھی یا مسلمان یہ آخر تک واضح نہیں ہوسکا۔ وہ کانگریس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنارہے تھے یا پھر مسلمانوں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر کانگریس کو۔ جوبھی ہو، مگر یہاں معاملہ چھری اور خربوزے والا تھا۔ یعنی چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان تو بہرحال خربوزے کا ہونا تھا۔وہی ہوا بھی۔بی جے پی اور وزیراعظم نے اس الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کی نظر میں مسلمانوں کو شجر ممنوعہ بنادیا۔درحقیقت اب سے دس سال پہلے جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تھا تو اسی وقت یہ اعلان کردیا گیا تھا کہ ملک سے مسلم سیاست اور مسلم قیادت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ملک میں نہ تو کوئی مسلم قائد رہے گا اور نہ مسلمانوں کی سیاست۔ ہم مسلم ووٹ کو ناکارہ بنادیں گے۔کم ازکم شمالی ہندوستان میں تو یہی ہوا کہ بی جے پی نے سیکولر پارٹیوں کو اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا کردیا کہ ان کی ناکامیوں کی اصل وجہ مسلمان ہیں اور جب تک وہ مسلمانوں کی ’منہ بھرائی‘کرتی رہیں گی، انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
اس پروپیگنڈے کا اتنا اثر ہوا کہ 2014 کا الیکشن ہارنے کے بعد کانگریس صدرسونیا گاندھی نے شکست کے اسباب کا پتہ لگانے کے لیے جوکمیٹی اے کے انتونی کی قیادت میں تشکیل دی تھی، اس نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ’’کانگریس دراصل اس لیے الیکشن ہارگئی کہ ہندوؤں میں یہ پیغام گیا کہ وہ مسلمانوں کی پارٹی ہے۔“اس بات کو سونیا گاندھی نے ایک میڈیا کانکلیو میں واضح الفاظ میں دوہرایا بھی تھا۔کانگریس نے اپنا احتساب کرنے کی بجائے ہارکا ٹھیکرا مسلمانوں کے سرپھوڑدیا اور پھر یوں ہوا کہ اس نے مسلمانوں سے دوریاں بنانی شروع کردیں۔ یہیں سے دراصل بی جے پی کا کھیل شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پرشانت کشور جیسے سنگھی ایجنٹوں نے سیکولر پارٹیوں کو کامیابی کا یہ باور کرایا کہ وہ مسلمانوں سے جتنا فاصلہ بنائیں گی، اتنا ہی کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ لہٰذا ممتا بنرجی،اکھلیش یادو، نتیش کمار اور چندرشیکھر راؤ جیسے لیڈروں نے اس نسخے پر عمل کیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہر سیکولر پارٹی کو مسلم ووٹ کی تو ضرورت ہے لیکن مسلمانوں کی کسی کو نہیں۔یہ دراصل مسلم ووٹ کو ناکارہ بنانے کی حکمت عملی تھی جس میں بی جے پی کوکامیابی ملی۔مسلمان ہندوستانی سیاست میں بیگانے بن گئے اور انھیں فٹ بال کی طرح استعمال کیا جانے لگا۔
یہی وجہ ہے وزیراعظم نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے انتخابی منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ محسوس کرلی۔اس کے بعد انھوں نے باربار یہ کہا کہ کانگریس اوبی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ یہ بات کتنی بار کہی گئی کہ اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔وزیراعظم کے ان بیانات کا مقصد کانگریس کو مسلمانوں کا ہمدرد ثابت کرنے سے زیادہ اوبی سی برادریوں میں مسلمانو ں کے خلاف نفرت اور تعصب کو فروغ دینا تھا، جس کی الیکشن کمیشن کو فوری گرفت کرنی چاہیے تھی، کیونکہ وہ پہلے ہی یہ واضح کرچکا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران کسی قسم کے فرقہ وارانہ بیان بازی برداشت نہیں کی جائے گی، لیکن الیکشن کمیشن نے ہزاروں شکایتوں کے باوجود بھی وزیراعظم سے کوئی بازپرس نہیں کی۔ وزیراعظم کے بیانات کی سطح اس حدتک گری کہ وہ مندر، مسجد، مٹن مچھلی، منگل سوتر سے ہوتے ہوئے مجرے تک آپہنچے۔انھوں نے کہا کہ انڈیا اتحاد کی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجرا کررہی ہیں۔یہ سارے بیانات ملک کے وزیراعظم کی طرف سے آرہے تھے اور پورا نظام انھیں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہا تھا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی لیڈروں کی زہرافشانی اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل بیان بازی پرتقریباً100سابق نوکر شاہوں نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔انھوں نے الیکشن کمیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں جبکہ انتخابی مہم اور پورے الیکشن کو نفرت اور اشتعال انگیزی کی طرف موڑا جارہا ہے، الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں رہن سکتا۔‘ افسوس کہ اس الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن نے بھی اپنے وقار اور آئینی خود مختاری کا سودا کرلیا۔اب جبکہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیے مسلمانوں کی حیثیت فٹ بال سے زیادہ کی نہیں رہ گئی ہے انھیں اپنے سیاسی بقاء کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنانی چاہئے تاکہ وہ بھی اس ملک میں سراٹھاکر جی سکیں۔