Jadid Khabar

ایودھیا کے بعد گیان واپی مسجدپر یلغار

Thumb

ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پرعظیم الشان رام مندرتعمیر کرنے کے بعدفسطائی طاقتوں کا اگلا نشانہ بنارس کی گیان واپی مسجد ہے۔ سترہویں صدی کی تعمیر شدہ اس مسجد کے نیچے بھی ”ایک بڑے مندر“ کے آثار تلاش کرلیے گئے ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ(اے ایس آئی) نے تین ماہ کے سروے کے بعد جو رپورٹ عدالت کو سونپی تھی، اسے طشت ازبام کردیا گیاہے۔فریق مخالف کا دعویٰ ہے کہ مسجد میں مندر کے 32 شواہد ملے ہیں۔اے ایس آئی نے 839 صفحات کی اپنی سروے رپورٹ میں کہا ہے کہ”گیان واپی احاطے میں موجود مسجد سے پہلے وہاں ایک ہندو مندر تھا، جسے سترہویں صدی میں توڑنے کے بعد اس کے ستون اور دیگر اشیاء کا استعمال مسجد کی تعمیر میں کیا گیا۔“ گیان واپی مسجد کا سروے اور اس کی رپورٹ کو عام کرنے کا حکم اسی عدالت نے دیا جس نے مسجد کے حوض میں موجودفوارے کو ’شیولنگ‘ قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اس نام نہاد ’شیولنگ‘ کا سروے ابھی آثارقدیمہ کی عینک سے نہیں ہوا ہے، لیکن سلسلہ واقعات یہی ثابت کرتے ہیں کہ سب کچھ اپنے وقت پر منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت ہوگا۔اے ایس آئی رپورٹ کو ہندو اپنے حق میں اہم ثبوت سمجھ رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعدمرکزی وزیر گری راج سنگھ نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ”وہ گیان واپی مسجد ہندوؤں کے حوالے کردیں۔“انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”اگر کوئی بابر یا اورنگزیب بننے کی کوشش کرے گا تو ہندو نوجوان مہارانا پرتاپ بن جائیں گے۔“اس دوران گیان واپی مسجد کمیٹی نے اے ایس آئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ”یہ محض ایک رپورٹ ہے، کوئی عدالتی فیصلہ نہیں۔کمیٹی نے کہا کہ ”جب سپریم کورٹ عبادت گاہوں سے متعلق قانون مجر1991کے تحت معاملے کی سماعت کرے گا تو وہ اپنا موقف پیش کریں گے۔“
گیان واپی مسجد کے خلاف اے ایس آئی کی رپورٹ ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا کے دور روز بعد سامنے آئی ہے۔ اس وقت ہندو بریگیڈ میں جوش وخروش کی جوکیفیت ہے اسے پوری طرح الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے 22/جنوری کو ہندتووادیوں میں  جو آگ بھری ہے، اس کا اثر دیرتک اور دور تک محسوس ہو گا۔ انھوں نے صرف مندر کا افتتاح ہی نہیں کیا بلکہ اپنی تقریر میں آئندہ ہزار سال کی منصوبہ بندی کا خاکہ بھی پیش کردیا ہے۔ مرکزی کابینہ نے اس معاملے میں وزیراعظم کی جوقصیدہ خوانی کی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ”1947میں ملک کومحض جسمانی طورپر آزادی ملی تھی، لیکن اس  میں اب روح پھونکنے کا کام وزیراعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔22جنوری کے سلسلہ واقعات پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک سیکولر جمہوری ملک کو پوری طرح زعفرانی لباس پہنادیا گیا ہے۔ وہ حکومت جو بلا تفریق مذہب وملت سب کے ساتھ انصاف کرنے کا حلف اٹھاکر اقتدار میں آئی تھی، مکملطورپر ہندوراشٹر کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کی پوری مشنری ہندتو کے ایجنڈے پرگامزن  ہے۔سیکولر ازم اور فاشزم کے درمیا ن حائلباریک سی چلمن کو بھی کو تارتار کردیا گیا ہے۔
90/ کی دہائی میں جب رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع ہواتھاتو اسے ایک مذہبی تحریک کا نام دیا گیا تھا، لیکن اس کے سیاسی مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں تھے۔بعد کے دنوں میں یہ ثابت بھی ہوا کہ سنگھ پریوار نے ایودھیا کی تحریک بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے مقصد سے شروع کی تھی،جس میں اسے سوفیصد کامیابی ملی۔لیکن اب جبکہ بی جے پی پوری طرح مرکز کے اقتدار پر قابض ہے اور ملک کے بیشتر صوبوں میں بھی اسی کی حکومت ہے تو آخروہ کون سا مقصد ہے جس کے تحت مسلم حکمرانوں کی تعمیرکردہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی خطرناک اور شرانگیزمہم چلائی جارہی ہے۔ظاہر ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہندوؤں کے اندر فخر کا احساس پیدا کرکے انھیں ایک فاتح قوم کے طورپر جینے کا حق فراہم کیا جائے اورمسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اس ملک کے اصل شہری نہیں ہیں بلکہ ان حملہ آوروں کے پسماندگان ہیں، جنھوں نے اس ملک پر ’آکرمن‘ کیا اور مندروں کو توڑکر مسجدیں بنائیں۔یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے مسلم دورحکومت کی مسجدوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہر مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ڈھونڈے جارہے ہیں۔اس مقصد کے تحت بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں کو ہی نشانے پر نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس فہرست میں ہرروز ایک نئی مسجد کا اضافہ ہورہا ہے۔
 تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ خطرناک مہم عدالتوں کے کاندھوں پر رکھ کر چلائی جارہی ہے اور عدالتیں دانستہ یا نادانستہ طورپر اس میں معاون بنتی جارہی ہیں۔مستقبل میں بابری مسجد تنازعہ جیسے تباہ کن تنازعات کو روکنے کے لیے 1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جو قانون منظور کیاگیا تھا، وہ خودبخود بے عمل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی عرضیوں پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں سنایاہے، لیکن جس تیزی کے ساتھ مسجدوں پر عدالتوں میں دعوے دائر کئے جارہے ہیں، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اس قسم کا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔ خود بنارس کے ضلع جج نے گیان واپی مسجد کے احاطہ میں پوجا کی اجازت طلب کرنے سے متعلق عرضی کو سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے کہا تھاکہ مذکورہ قانون اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔
آپ کو یادہوگا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کو سونپنے کا فیصلہ سناتے وقت واضح طورپر کہا تھاکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد مندر توڑکربنائی گئی تھی۔ گیان واپی مسجد کی  سروے رپورٹ میں جس طرح مسجد کے نیچے ایک بڑے مندر کے باقیات ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اسی طرح کا دعویٰ بابری مسجد کے نیچے کھدائی کے دوران بھی کیا گیا تھا، لیکن عدالت نے اس دوعوے کو مسترد کردیا۔گیان واپی مسجد کی سروے رپورٹ پرآل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی کا کہنا ہے”اے ایس آئی کے نتائج آثار قدیمہ کے پیشہ ور ماہرین یا تاریخ دانوں کے کسی بھی گروپ کے سامنے اکیڈمک جانچ میں ٹھہر نہیں پائیں گے۔ یہ رپورٹ اندازوں پر مبنی ہے اور سائنسی جانچ کا مذاق اڑاتی ہے۔جیسا کہ ایک عظیم دانشور نے ایک بار کہا تھا کہ ’اے ایس آئی ہندتو کی داسی ہے۔“ 
گیان واپی مسجد ایک تاریخی عبادت گاہ ہے، جو 1669میں تعمیر ہوئی تھی۔ تب سے وہاں مسلسل نماز ادا کی جارہی ہے۔1937 کے دین محمدبنام حکومت ہند مقدمہ میں بھی گیان واپی کو مسجد تسلیم کرتے ہوئے اس میں نمازکا حق مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔1944 میں گیان واپی مسجد کو وقف بورڈ میں درج کراتے ہوئے صوبائی سرکار نے گزٹ جاری کیا تھا۔کاشی وشوناتھ مندر کے احاطہ میں زمین کے تبادلہ میں گیان واپی کو مسجد کے طورپر ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ گیان واپی مسجد کی ملکیت مغل حکمراں اورنگزیب کے نام تھی اور ان ہی کی طرف سے دی گئی زمین پریہ مسجد تعمیر ہوئی تھی۔المیہ یہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اورنگزیب پر مندروں کو مسمار کرنے کے الزامات عائد کرتی ہیں، جبکہ ان کے بارے میں معتبر مورخین نے لکھا ہے کہ انھوں نے مندروں کو جائیدادیں عطا کیں اور انھیں عطیات فراہم کئے۔ بی این پانڈے سمیت متعدد غیرجانبدار مورخین نے اپنی کتابوں میں ا س کے ثبوت پیش کئے ہیں، لیکن اس وقت ملک میں جو لہر چل رہی ہے اس میں کوئی معقول بات کہنا یا سچائی کا اظہار کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔