وزیراعظم نریندرمودی آج کل عجیب وغریب کیفیت میں مبتلا ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی سیاست داں نہیں بلکہ مذہبی رہنما ہیں اور ان کا کام حکومت کا کام کاج چلانا نہیں بلکہ مندر کی گھنٹیاں بجانا ہے۔ وہ نہ صرف سرتاپا رام بھکت کے جذباتی کردار میں نظرآرہے ہیں بلکہ انھوں نے ملک کے عوام سے بھی اپنا بھیس بدلنے کو کہا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی سماج میں ہر شخص کا اپنا کردار ہوتا ہے،لیکن ہمارے وزیراعظم کی خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو ہرکردار میں ڈھالنے پر یقین رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کل یعنی22/جنوری کو اجودھیا میں زیرتعمیر نامکمل مندر کے افتتاحی پروگرام کو یادگار بنانے کے لیے پورے ملک کو رام رام جپنے کا حکم دیا ہے اور بی جے پی وسنگھ پریوار کی کوششوں سے ہرطرف رام مندر کے چرچے نظر آرہے ہیں۔ بظاہر یہ رام مندر کا افتتاحی پروگرام ہے، لیکن اس کا پورا تام جھام سیاسی ہے، جس کا مقصد اس سال برپا ہونے والے عام انتخابات میں شاندار جیت حاصل کرنا ہے۔یہ جیت صرف اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے تک ہی محدود نہیں ہوگی، بلکہ اس کا مقصد خود کو ہندوؤں کا مسیحابھی تسلیم کرانا ہے۔
رام مندر کے افتتاح کی تقریب کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی اس کے اہداف سیاسی ہیں اور مذہب وسیاست کو اس معاملے میں اتنا خلط ملط کردیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی شکل پہچاننا مشکل ہورہا ہے۔ شنکر اچاریوں نے درست ہی کہا ہے کہ مندر کا افتتاح ایک مذہبی تقریب ہے، اس لیے یہ کام کسی مذہبی شخصیت کو کرنا چاہئے اور اس کے لیے مناسب مہورت بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاروں شنکر اچاریوں نے یہ کہتے ہوئے اس تقریب میں شرکت سے انکار کردیا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر کی جارہی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔شنکر اچاریوں کو اس مندر کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی افتتاح کی رسم انجام دینے پر بھی اعتراض ہے، مگر یہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی کی مجبوری ہے کہ وہ انتخابات سے قبل ہی اس کا افتتاح کریں تاکہ صحیح وقت پر ووٹوں کی فصل اگائی جاسکے۔
افتتاحی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ اتنا ہی نہیں اس پروگرام کو بے مثال بنانے کے لیے سرکاری وسائل اور سرکاری مشنری کو بھی پوری طرح اس میں جھونک دیا گیا ہے۔رام مندر کے حوالے سے خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔
وزیراعظم آج کل جنوبی ہند کے مندروں میں ماتھا ٹیک رہے ہیں اور ان کی پوری کابینہ مختلف مندروں کیصفائی ابھیان میں لگی ہوئی ہے۔ ایک سیکولر جمہوری ملک میں جہاں مذہب کو سیاست سے دور رکھا گیا ہے، وہاں کی پوری حکومت اس وقت صرف اور صرف ہندو دھرم کی آستھاؤں کاپالن کررہی ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پورا ملک رام کے قدموں میں ہے اور سبھی ان کا جاپ کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ22جنوری کے پروگرام سے خود کو دور رکھنے والوں کو ’رام مخالف‘ قرار دے کر دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کانگریس نے اسے بی جے پی اور آرایس ایس کا پروگرام قراردے کر خود کو علاحدہ کرلیاہے۔ دیگر سیکولر جماعتیں بھی اسی پر عمل پیرا ہیں۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ وہ 22/جنوری کو کلکتہ میں سبھی مذاہب کو ساتھ لے کر سدبھاؤنا ریلی کریں گی۔یہ ایک اچھی پہل ہے کیونکہ اس پروگرام کے حوالے سے جس طرح ملک کے اندر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ ملک کی اقلیتوں کے اندرخوف ودہشت پیدا کرنے والا ہے۔
وزیراعظم نریندرمودی نے گزشتہ دنوں ایودھیامیں سوغاتیں بانٹتے ہوئے وہاں 22/جنوری کو بھیڑ بھاڑ روکنے کے لیے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ ”وہ اس موقع پر ایودھیا نہ آئیں۔ جب انھوں نے پانچ سوسال انتظار کیا ہے تو مزید انتظار کر سکتے ہیں۔“ سبھی کو معلوم ہے کہ پانچ سوسال کا یہ عرصہ1528 سے شروع ہوتا ہے جب وہاں مغل شہنشاہ بابر کے سپہ سالار میرباقی نے بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔ بابری مسجد کے بارے میں سنگھ پریوار نے یہ سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ کیا کہ یہ مسجد رام مندر کو مسمار کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ بابری مسجد کو’غلامی کی علامت‘ قرار دے کر ایک خونریز تحریک شروع کی گئی، جس کا خمیازہ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھگتنا پڑا اور ملک کے دو بڑے فرقے ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔اس تحریک کا بنیادی مقصد ملک کے اندر فرقہ وارانہ منافرت کو اس حدتک فروغ دینا تھا کہ مسلمان اس ملک میں ایک دشمن کی طرح نظرآئیں اور انھیں قدم قدم پر رسوا کیا جاسکے۔ سیکولرازم کا نظریہ اس کا خاص ہدف تھا، جسے اس حد تک کمزوراور لاچار کردیا گیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں بی جے پی کے نرغہ سے نکلنے میں پریشانی محسوس کررہی ہیں۔
اس بات کا شور بہت ہے کہ رام مندر چونکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تعمیر ہورہا ہے، اس لیے اس میں ملک کے ہر شہری کو حصہ لینا چاہئے۔ اس ملک میں لاکھوں مندر ہیں اور کروڑوں ہندو، لیکن آج تک کسی مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی رام مندر کو دی جارہی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس مہم جوئی کا بنیادی مقصد سیکولرازم کے نظرئیے کو کمزورتر کرنا اور مسلمانوں کو یہ باور کرانا ہے کہ تمہارے آباواجداد نے جوظلم وستم کیا تھا، اس کی سزا تمہیں بھگتنی ہوگی۔بار بار یہ تو کہا جارہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر سپریم کورٹ کے حکم سے ہورہی ہے،لیکن یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ 9/نومبر2019 کوسپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کے سپرد کرنے کا حکم دیتے ہوئے تین باتیں بہت واضح طور پر کہی تھیں۔ اوّل یہ کہ عدالت کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔دویم یہ کہ22/23دسمبر 1949کی درمیانی شب میں بابری مسجدکے اندر مورتیاں رکھنا مجرمانہ عمل تھا۔ سوئم یہ کہ بابری مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ سرگرمی تھی۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کا موقف بالکل درست تھا اور فریق مخالف کی ساری دلیلیں بوگس تھیں، لیکن عدالت عظمیٰ نے تینوں بنیادی حقائق تسلیم کرنے کے باوجود ان لوگوں کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کی جنھوں نے6دسمبر1992کو ایودھیا میں بابری مسجدمنہدم کی تھی۔وہ لوگ آج بھی کھلے گھوم رہے ہیں اور ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔یہ تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مندر کی افتتاحی تقریب میں ملک کی جن آٹھ ہزار اہم ترین شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے،ان میں سپریم کورٹ کے وہ پانچ جج بھی شامل ہیں، جنھوں نے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کیس کافیصلہ سنایا تھا۔ اس دوران شنکر اچاریہ اومکتیشور انند نے دعویٰ کیا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کا حل سپریم کورٹ کے فیصلے سے نہیں بلکہ عدالت کے باہر باہمی مفاہمت سے ہوا تھا، کیونکہ یوپی سنّی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین زیڈ فاروقی نے بابری مسجد پر اپنا مالکانہ حق چھوڑنے کا حلف نامہ عدالت میں داخل کیا تھا۔
ایودھیا میں تعمیر ہونے والارام مندر محض اینٹ اور گارے سے بنی ہوئی ایک عمارت نہیں ہوگی بلکہ اس کے ذریعہ یہ بھی ثابت کیا جائے گا کہ ”ہم نے پانچ سو سال“پہلے ہوئی بے عزتی کا انتقام لے لیا ہے۔یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا اصل ہدف کون ہے اور آنے والے دنوں میں اس ہندو احیاء پرستی کا خمیازہ کون بھگتے گا۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب یہ ملک کن بنیادوں پر کھڑا ہوگا اور یہاں رہنے والی اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمانوں کی کیا حیثیت ہوگی۔ موجودہ حکمرانوں نے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے اور یہاں انہی کی چلے گی،جہاں تک یہاں کی اقلیتوں کا سوال ہے تو انھیں ان ہی کے رحم وکرم پر زندگی گزارنی ہوگی۔اس تاثر کو زائل کرنے کا سب سے کارگر نسخہ یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلمان زیادہ سے زیادہ سیکولرپارٹیوں کے ہاتھ مضبوط کریں اور اپنے ووٹوں کو منتشر نہ ہونے دیں۔سیکولرازم اور جمہوریت ہی اس ملک کی روح ہے، جس کے بغیر ہندوستان کا کوئی تصور نہیں ہے۔