ترنمول کانگریس کی انتہائی تیز طرار ایم پی مہوا موئتراکی لوک سبھا سے برخاستگی کا معاملہ ایک بڑے سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھیں جن بنیادوں پر برخاست کیا گیا ہے، وہ انتہائی کمزوراور لچر ہیں۔ لوک سبھا کی اخلاقیات کمیٹی پر الزام ہے کہ اس نے معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش نہیں کی اور اپنے اختیارات سے آگے بڑھ کرانھیں ہاؤس سے برخاست کرنے کی تجویز پیش کردی، جسے اسپیکر نے جوں کا توں قبول کرتے ہوئے صوتی ووٹ کی مددسے مہوا کو برخاست کرنے کا فیصلہ سنایا۔اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا اور متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنے کی بات کہی ہے۔اس پورے معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے اپوزیشن اتحاد’انڈیا الائنس‘ میں نئی جان پڑگئی ہے۔ دودن پہلے ’انڈیا اتحاد‘ میں شامل پارٹیوں کی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ سے ترنمول کانگریس کی غیرحاضری پر اتحاد کے مستقبل پر جو سوال کھڑے کئے جارہے تھے، ان پر اب روک لگ گئی ہے۔مہوا معاملہ میں اتحادی پارٹیوں کی حمایت کے پیش نظر ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”مہوا کے خلاف ہوئی کارروائی بدبختانہ ہے اور ہماری پارٹی انڈیا اتحاد کے ساتھ مل کر سرکار کے خلاف لڑائی لڑے گی۔“
قابل ذکر بات یہ ہے کہ لوک سبھا میں جب مہوا کے خلاف اخلاقیات کمیٹی کی رپورٹ پر بحث ہورہی تھی تو اس وقت ’انڈیا اتحاد‘ کے سبھی حلیف ایک ساتھ نظر آرہے تھے۔ سبھی نے متحدہوکر رپورٹ کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اپنی برخاستگی کے بعد جب مہوا پارلیمنٹ کے صدر دروازے پر میڈیا سے روبرو ہوئیں تو ان کی پشت پر سونیا گاندھی سمیت تمام ہی اپوزیشن لیڈران کھڑے ہوئے تھے۔ابھی چار ہی دن ہوئے ہیں کہ حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شکست فاش کے بعد یہ پیشین گوئیاں کی جانے لگی تھیں کہ اب ’انڈیا اتحاد‘ منتشر ہوجائے گا اور لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں گے، لیکن مہوا کے معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کی یکجہتی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ’انڈیا اتحاد‘ میں نئی جان پڑگئی ہے۔ وہ ممتا بنرجی جو کل تک کانگریس کو آنکھیں دکھا رہی تھیں انھوں نے خود کہا ہے کہ ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا۔
مہوا مویترا پر الزام ہے کہ انھوں نے اڈانی کے خلاف لوک سبھا میں جو سوالات پوچھے ان کے لیے ایک دوسرے تاجر درشن ہیرا نندانی سے رقم وصول کی۔ ہنگامہ آرائی کے بعد تحقیقات کے لیے یہ معاملہ لوک سبھا کی اخلاقیات کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔کمیٹی میں بی جے پی اور اپوزیشن دونوں کے ممبران تھے، لیکن بی جے پی ممبران کی جانبداری کے پیش نظر اپوزیشن ارکان نے اس کمیٹی سے پہلو تہی کی اور اس طرح بی جے پی ممبران نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اپنی رپورٹ میں مہوا کو برخاست کرنے کی سفارش کردی۔ حالانکہ کمیٹی کو اپنی چھان بین کی بنیاد پر یہ طے کرنا تھا کہ مہوا قصوروار ہے یا نہیں، لیکن اس نے بہت عجلت میں کام کرتے ہوئے مہوا کی برخاستگی کی سفارش کردی۔ یہ وہی اخلاقیات کمیٹی ہے جو رمیش بدھوڑی کے معاملے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے، جنھوں نے ہاؤس میں بی ایس پی ممبر دانش علی کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے اور انھیں دہشت گرد تک کہہ ڈالا تھا۔ یہاں معاملہ چونکہ ایک بی جے پی ممبر کا ہے اس لیے اخلاقیات کمیٹی نے الٹے دانش علی کو بھی ملزم بنالیا ہے۔ مہوا نے اپنی برخاستگی پر کہا ہے کہ ”معاملے کی تہہ میں جائے بغیر اخلاقیات کمیٹی نے انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا فیصلہ کیا ہے۔“مہوا نے یہ بھی کہا کہ ”مودی سرکار انھیں خاموش کراکے اڈانی معاملہ میں بچ نہیں سکتی۔“مہوا نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اب انھیں آئندہ چھ ماہ سی بی آئی کے ذریعہ ہراساں کیا جائے گا“۔انھوں نے حکومت سے سوال کیا کہ اڈانی کے 13ہزار کروڑ کے گھوٹالے کا کیا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ بی جے پی اقلیتوں اور خواتین سے نفرت کرتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ لوک سبھا اسپیکر نے مہوا کی برخا ستگی کا فیصلہ سنانے سے پہلے انھیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ نہ ہی ممبران کو اخلاقیات کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کی مہلت دی گئی۔دن میں بارہ بجے یہ رپورٹ پیش ہوئی اور دو بجے فیصلہ سنادیا گیا۔ یہ سب کچھ اتنی عجلت میں ہوا کہ گویا حکومت جلد ازجلد انھیں پارلیمنٹ سے رخصت کرنا چاہتی تھی۔دراصل لوک سبھا اپوزیشن کے جتنے بھی اراکین ہیں، ان میں مہوا سب سے زیادہ بے باک تھیں اور وہ بے خوف ہوکر اظہار خیال کرتی تھیں۔ وہ نہایت مدلل انداز میں اپنی بات کہتی تھیں اور جب وہ بولنے کھڑی ہوتیں تو حکمراں جماعت کے ممبران بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آتے تھے۔ بی جے پی کے پاس مہوا کا کوئی توڑ نہیں تھا اور وہ ان کے حملوں سے پریشان تھی، لہٰذا انھیں ایوان سے باہر کرنے کے لیے ایک جال بچھایا گیا۔
49سالہ مہوا مویترا کا تعلق کلکتہ کے ایک برہمن خاندان سے ہے۔ انھوں نے امریکہ میں معاشیات کی تعلیم حاصل کرکے ایک سرمایہ کار بینکر کے طورپرکیریرشروع کیا۔2008میں ایک امریکی بینک سے منیجنگ ڈائریکٹر کی ملازمت چھوڑکر وہ ہندوستان آئیں اور انھوں نے یوتھ کانگریس سے اپنا سیاسی سفرشروع کیا۔ بعد کو وہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئیں۔ انھوں نے 2016میں بنگال کی کریم پور سیٹ سے اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور 2019 میں کرشنا نگر سیٹ سے لوک سبھا کی ممبر چنی گئیں۔ انھوں نے لوک سبھا میں اپنے انداز بیان سے بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی۔ وہ اکثر حکومت کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتی تھیں اور اڈانی معاملے میں سب سے زیادہ تیکھے سوال انھوں نے ہی پوچھے تھے۔مودی سرکار ان کے تیوروں سے پریشان تھی کہ مہوا کے ہی ایک سابق دوست نے ان کے خلاف سازش رچی۔ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اڈانی سے متعلق جو بھی سوال لوک سبھا میں پوچھے ہیں، اس کے لیے انھیں بھاری رقم ملی ہے۔ اتنا ہی نہیں ان کا میل آئی ڈی میں دیگر لوگوں نے استعمال کیا ہے۔اس معاملہ کے منظرعام پر آنے کے بعد مخالفین نے ان کی کردار کشی بھی کی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ مودی سرکار نے اپنے کسی سیاسی مخالف کی آواز کو بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو سورت کی ایک عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد لوک سبھا سے برخاست کیا گیا تھا، لیکن یہ معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا تو عدالت نے اس سزا کو ہی برخاست کردیا اور ان کی رکنیت بحال ہوئی۔حکومت پر تنقید کرنے والے اور بھی کئی ممبران کو مختصر عرصہ کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے معطل کیا گیا ہے، مگر یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ممبر پر الزام ثابت ہوئے بغیر اس کی رکنیت ختم کردی گئی ہے۔ اس سے قبل مہوا کو لوک سبھا کی اخلاقیات کمیٹی نے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا تھا اور وہ اس کے سامنے پیش بھی ہوئی تھیں، لیکن کمیٹی کے ارکان نے ان سے کچھ ایسے نجی سوالات پوچھے جن سے ناراض ہوکر وہ واک آوٹ کرگئیں۔اس کے بعد یہ معاملہ سی بی آئی کے سپرد کردیا گیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مہوا کی رکنیت ختم کرنے کے معاملے میں اسپیکر نے جس کیس کو نظیر بنایا ہے، وہ2005کا معاملہ ہے۔اس وقت رقم کے بدلے سوال پوچھنے کے معاملے میں گیارہ ممبران کی رکنیت چھن گئی تھی۔ کانگریس کی قیادت والی مرکزی حکومت کے دور میں جن ممبران کی رکنیت ختم ہوئی تھی، ان میں زیادہ تر بی جے پی کے ہی ممبر تھے، جنھیں ایک اسٹنگ آپریشن میں سوالوں کا سودا کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس وقت رکنیت خارج ہونے کے بعد بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ برخاستگی جیسی سزا بہت زیادہ ہے۔