غزہ میں اسرائیلی بربریت کو اب ایک ماہ پورا ہوا چاہتا ہے۔ حماس کی عسکری طاقت کو گھنٹوں میں مٹادینے کا دعویٰ کرنے والی اسرائیلی فوج کو زمینی جنگ میں لوہے کے چنے چبانے پڑرہے ہیں۔ کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے ایک مہینہ کم نہیں ہوتا۔وہاں تو بالکل بھی نہیں جہاں طاقت کا توازن جارح قوت کے ہاتھ میں ہو۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں ٹنوں بارود برسانے کے باوجود بھی حماس کا حوصلہ نہیں توڑ پایا ہے۔غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ”اسرائیل نے اب تک غزہ پٹی پر دو ایٹم بموں کے برابر دھماکہ خیز مواد استعمال کیا ہے۔“غزہ کا مکمل محاصرہ پہلے ہی کرلیا گیا تھا اور اب وہاں کی دل دہلادینے والی خبروں کی پردہ پوشی کے لیے موبائل اور انٹر نیٹ خدمات بھی بند کردی گئی ہیں۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غزہ کے باشندے جائیں تو جائیں کہاں؟ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ نہ اسپتال، نہ اسکول، نہ پناہ گزینوں کے کیمپ۔ ایسی لاچاری اور مجبوری شاید ہی دنیا میں کسی خطہ کے باشندوں نے کبھی دیکھی ہو۔ ایسی مظلومیت اور بے کسی کا بھی شاید کبھی کسی نے مشاہدہ کیا ہو، لیکن گزشتہ ایک ماہ سے غزہ میں سب کچھ یونہی چل رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کی ایک سے بڑھ کر ایک ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائی بلاروک ٹوک جاری ہے۔ مغربی دنیا ایک طرف امن کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف امریکہ اسرائیل کو14ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد مہیا کرانے کا اعلان کرتا ہے۔ یہی وہ منافقانہ طرز عمل ہے جس نے اس وقت پوری دنیا کو بارود کے ڈھیر پر بٹھادیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے غزہ میں راحت رسانی کے لیے پیش کی گئی عارضی جنگ بندی کی تجویزمسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”جنگ بندی حماس کے سامنے خودسپردگی جیسا عمل ہوگا۔“ انھوں نے کہا کہ ”جس طرح نائن ایلیون کے حملوں کے بعد امریکہ جنگ بندی کے لیے راضی نہیں تھا، اسی طرح اسرائیل سات اکتوبر کے حملوں کے بعد دشمنی ختم کرنے کو راضی نہیں ہے۔“اس بیان سے واضح ہے کہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ میں جو قرارداد منظور کی گئی ہے، اسرائیل کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کو آنکھیں دکھائی ہیں۔ شروع سے ہی اس کا عمل یہی ہے۔وہ اب تک اقوام متحدہ کی سیکڑوں قرار دادوں کو انگوٹھا دکھا چکا ہے۔ پچھلے ہفتہ جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے مظلوم فلسطینیوں کی بپتا بیان کی تھی تو وہاں اسرائیلی مندوب نے ان کے ہی خلاف مورچہ کھول دیا تھا اور سکریٹری جنرل سے استعفیٰ کا مطالبہ کرڈالا تھا۔
فلسطینیوں کی نسل کشی پر دنیا مگر مچھ کے آنسو بہارہی ہے۔کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ظالم کی کلائی مروڑ سکے۔ہاں مغربی ملکوں کے لوگ سڑکوں پرضرورنکل آئے ہیں اور وہ غزہ میں انسانیت کی تاراجی پر احتجاج کررہے ہیں، لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔یہاں تک کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے یہودی بھی یہ کہتے ہوئے چیخ اٹھے ہیں کہ”ہمارے نام پر یہ قتل عام بند کیا جائے“ لیکن اسرائیل کے ظالم وجابر حکمراں نتن یاہو نے قسم کھائی ہے کہ وہ حماس کو مٹادینے تک غزہ کو جہنم بنائے رکھیں گے۔گزشتہ ایک ماہ سے غزہ پر جو بارود برسائی جارہی ہے، اس کے نتیجے میں اب تک دس ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ہلاک ہونے والوں میں تقریباً چار ہزار بچے اور دوہزار خواتین شامل ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سات اکتوبر سے غزہ پٹی پر اپنے حملوں میں دوایٹم بموں کی طاقت کے برابر دھماکہ خیز مواد استعمال کیا ہے۔اسرائیل نے غزہ میں بارہ ہزار سے زیادہ فضائی حملے کئے ہیں، جس میں شہریوں کے مکانوں، عوامی سہولتوں، اسکولوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔دولاکھ سے زیادہ رہائش گاہوں کو نقصان پہنچا ہے جن میں 35ہزار بالکل تباہ ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے حملوں میں 135طبی کارکنوں،40صحافیوں اور 49مذہبی رہنماؤں کو ہلاک کیا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں غزہ کی 54مسجدیں مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہیں۔جارح افواج منصوبہ بندی کے تحت پرہجوم رہائشی علاقوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی پناہ گزین خدمات سے وابستہ67کارکنان بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔غزہ میں اوسطاً ہر دس منٹ میں ایک کمسن بچے کی موت واقع ہورہی ہے۔ ہلاک ہونے والے بچوں کی یومیہ تعداد 400 سے زیادہ ہے۔
دنیا پر اس ہولناک جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔بموں کی بارش مظلوم فلسطینیوں پر ہورہی ہے اور ان کی بدترین نسل کشی کی جارہی ہے، لیکن حیرت انگیز طورپر یہودیوں کو اپنی نسل کے فنا ہونے کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس جنگ میں ہلاک ہونے والے اپنے فوجیوں کے نطفے محفوظ کرنا شروع کردئیے ہیں۔ یہودی دنیا کی ان چند نسلوں میں سے ایک ہیں، جن کی آبادی دنیا میں معدوم ہورہی ہے۔ افزائش نسل کے لاکھ جتن کرنے کے باوجود ان کی آبادی روز بروزکم ہورہ ہی ہے۔ حماس کے حالیہ راکٹ حملوں اور جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے تعلق سے اسرائیلی یہودیوں میں خوف وہراس کی لہر پھیل گئی ہے۔اس حملے نے جہاں اسرائیل پر لرزہ طاری کردیا ہے وہیں انھیں اپنی نسل کے بقاء کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے۔اسرائیلی حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے جو جتن کئے تھے وہ سب کے سب دھرے رہ گئے ہیں۔ گزشتہ ۷/اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر جو راکٹ برسائے انھوں نے تمام یہودیوں کو اپنی حفاظت کے تعلق سے شدید تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ کیونکہ نتن یاہو نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ اس وقت دنیا کے ایک ایسے محفوظ ترین ملک میں رہتے ہیں جہاں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔ اسرائیل کے خفیہ نظام اور جاسوسی آلات کے علاوہ جنگی سازوسامان اور دفاعی قوت کا پوری دنیا اعتراف ہی نہیں کرتی بلکہ ہندوستان جیسے ملک اپنی دفاعی اور خفیہ اطلاعات کی فراہمی کے لیے اس پر انحصار بھی کرتے ہیں، ایسے میں جب حماس نے اس پر حملہ کیا تو اسرائیل کی تمام دفاعی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
اس وقت پوری دنیا کییہودی زبردست خوف وہراس میں مبتلا ہیں،کیونکہ جس قسم کی دشمنی کا عندیہ نتن یاہو نے دیا ہے وہ صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں ہے۔حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعہ کی اصل جڑ اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیاں اور گریٹر اسرائیل کا خواب ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کررہا ہے۔اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر آج تک یہی سب کچھ کیا ہے۔ اس نے فلسطینیوں کے تمام انسانی حقوق سلب کرلیے ہیں۔حماس کے حالیہ حملے کے بعد مغربی میڈیا کے توسط سے یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ فلسطینی ایک دہشت گرد قوم ہیں، جبکہ اصل دہشت گرد خود اسرائیل ہے جو دنیا کے کسی قانون کی پاسداری نہیں کرتا اور اپنی جنگی قوت کے بل پر فلسطینیوں پر مسلسل آگ برسارہا ہے۔غز ہ کی صورتحال دن بہ دن تشویشناک ہوتی چلی جارہی ہے۔رہائشی عمارتوں، گھروں، گلیوں، عبادت گاہوں اور اسپتالوں پر حملوں کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔
اس وقت دنیا کے تمام ہی امن پسند باشندے غزہ میں امن چاہتے ہیں۔ ان کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ کسی بھی طرح غزہ میں جاری نسل کشی رک جائے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو قرارداد پیش کی گئی تھی، اس پر ممبران کی اکثریت نے مہر لگائی، لیکن ہمارے ملک ہندوستان نے اس موقع پر غیرحاضر رہ کر امن کے قیام کا ایک موقع گنوادیا۔اس صورتحال پر کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں نے سخت تنقید کی ہے۔ کانگریس نے ہندوستان کے اس قدم کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ”صرف ایک سنگدل اور فسطائی حکومت ہی ایسا کرسکتی ہے۔“المیہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے متعلق ہندوستان کی خارجہ پالیسی پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے۔ شروع سے فلسطینی کاز کی حمایت کا کرنے والا ہمارا ملک اس وقت پوری طرح اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہوا ہے اور اندرون ملک بھی ایسی صورتحال بنادی گئی ہے کہ یہاں فلسطین کا پرچم لہرانا بھی جرم ہوگیا ہے۔