بابری مسجد سے دستبردار ی کے عوض امن خریدنے والوں کے لیے مسلسل بری خبریں موصول ہورہی ہیں۔سپریم کورٹ کے حکم سے بابری مسجد کی ارا ضی پر رام مندر کی عظیم الشان تعمیر جاری ہے۔ اس سے حوصلہ پاکر مزید مسجدوں پر قبضہ کرکے انہیں مندر بنائے جانے کے مطالبات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔بابری مسجد کے بعدبنارس کی گیان واپی مسجد کو بڑی چالاکیوں سے قانونی پیچیدگیوں میں الجھایا جاچکا ہے۔ اب فرقہ پرستوں کی نظریں متھرا کی شاہی عیدگاہ پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ گیان واپی مسجد کی طرز پر شاہی عیدگاہ کا بھی سائنسی سروے کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت کو معاشرے میں بے چینی پیدا کرنے کا سبب قرار دے کرپہلے ہی مسترد کرچکا ہے، مگر اس وقت ملک میں تاریخی مسجدوں اورمسلم دور حکومت کی عمارتوں کو متنازعہ بنانے کی جو خطرناک مہم چل رہی ہے، اس میں کب کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
مجھے یاد ہے کہ جس وقت ملک میں بابری مسجد بازیابی تحریک اپنے شباب پر تھی تو ہمارے کچھ دانشورں کی رائے تھی کہ اگر ایک مسجد دے کر امن وچین حاصل کیا جاسکتا تو مسلمانوں کو یہ قربانی دے دینی چاہئے۔ کئی لوگ اس کے حق میں بھی تھے۔ یہ درحقیقت صورتحال کا ایک سرسری تجزیہ تھا اور ایسا کہنے والوں کو اصل سازش کا علم نہیں تھا۔ وشوہندو پریشد نے جس وقت رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا تو اس کا نعرہ تھا ’یہ تو بس ایک جھانکی ہے، کاشی‘متھرا باقی ہے۔‘اتنا ہی نہیں اس وقت وشوہندوپریشد کے ہاتھوں میں تین نہیں تین ہزارتاریخی مسجدوں کی فہرست تھی، جو ان کے خیال میں مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں۔لہٰذا بابری مسجد بازیابی تحریک کے دوران دوراندیش لوگوں کا یہی خیال تھا کہ مسلمانوں کو اپنے دستوری حقوق کی لڑائی آخری مورچے تک لڑنی چاہئے۔ بابری مسجد بازیابی تحریک سے مسلمانوں کو فائد ہو ہوا یا نقصان؟ اس موضوع پر بحث ہوسکتی ہے، کیونکہ ایک طبقے کا خیال تھا کہ مسلم قیادت نے بابری مسجد کے مسئلہ کو سڑکوں پر لاکر فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تحریک صحیح خطوط پر چلی یا نہیں، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ یہ اس ملک میں مسلمانوں کی آخری مزاحمتی تحریک تھی۔سی اے اے اور این آرسی کے خلاف تحریک کو بھی اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
بابری مسجد عدالت کے راستے سے مسلمانوں سے چھین لی گئی، لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اسے بابری مسجد کے نیچے کسی مندر کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور نہ اس بات کاکوئی سراغ ملا کہ بابری مسجدکسی مندرکو توڑ کر بنائی گئی تھی۔اتنا ہی نہیں عدالت نے بابری مسجد کے انہدام کو مجرمانہ سرگرمی سے بھی تعبیر کیا،لیکن اس کے باوجود ملک میں تاریخی مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی خطرناک مہم شباب پر ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں عدالتیں شرپسندوں کی ہمنوائی کررہی ہیں۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کا سائنسی سروے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ اس سے قبل گیان واپی مسجد کی حوض کے فوارے کو نام نہاد شیولنگ قرار دینے کی کوششوں کو بھی ایک مقامی عدالت نے ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔اب فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کا رخ متھرا کی انتہائی خوبصورت شاہی عیدگاہ کی طرف ہے۔ متھرا کے ایک ٹرسٹ نے اورنگزیب کی تعمیر کردہ شاہی عیدگاہ کا سائنسی سروے کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ واضح رہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کی طرز پر ہندو انتہا پسند وں نے متھرا میں شاہی عیدگاہ کو ہٹانے کے لیے مقدمہ دائر کررکھا ہے۔
سال رواں کے شروع میں یوپی کی ایک ذیلی عدالت اور الہ آباد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ کے سروے کے لیے ہندو ٹرسٹ کی درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس کے خلاف مذکورہ ٹرسٹ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ٹرسٹ نے سپریم کورٹ میں متھرا کی شاہی عیدگاہ کے بارے میں اپنے دعوے کو یقینی بنانے کے لیے سائنسی سروے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ٹرسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم فریق اس جگہ پر نماز ادا کررہا ہے، احاطہ کو بیت الخلاء کے طورپر استعمال کررہا ہے اور ٹرسٹ کے ذریعہ مقدس سمجھی جانے والی جگہ پر پریشانیاں پیدا کررہا ہے۔ درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ہندو علامتوں، مندر کے ستونوں اور مندر کے دیگر اہم عناصر کی مسلسل کھدائی اور اس کو تباہ کیا جارہا ہے۔ٹرسٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان سب باتوں کی وجہ سے اس مقام کے تقدس اور ثقافتی ورثہ کو نقصان پہنچا ہے۔جنریٹر کے استعمال سے دیوار میں دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ اس لیے عدالت کو کمشنر کی تقرری پر غور کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو پائیں گے کہ بی جے پی اقتدار میں منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں صفر بنانے کے علاوہ انھیں پژمردگی کا شکار بنانے کے لیے ان کی مذہبی اور ثقافتی پہچان پر لگاتار حملے ہورہے ہیں۔ یہاں جان ومال اور جائداد کی بربادی کا حال بھی بیان کیا جاسکتا ہے جس کا نظارہ آپ نے حال ہی میں ہریانہ کے میوات علاقہ میں دیکھا۔حکمران وقت چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اتنا بے بس اور لاچار کردیا جائے کہ وہ جان ومال کی حفاظت کی خاطر اپنی مذہبی شناخت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یکے بعد دیگرے ان کی عبادت گاہوں پر حملے اسی حکمت عملی کے تحت ہورہے ہیں۔یہاں تک کہ مسجدوں کا وجود مٹانے کے لیے انتظامی حربے بھی اختیار کئے جارہے ہیں۔ نئی دہلی کے سنہری روڈ پر واقع 150سالہ قدیم سنہری مسجد کو ٹریفک کی آمدورفت کے مقصد سے مسمار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔دہلی وقف بورڈ نے اس کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے عدالت میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سنہری باغ مسجد150 سال پرانی ہے لیکن اسے ٹریفک کی آمدورفت کو ہموار بنانے کے لیے ہٹایا جانا لازمی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب یہ مسجد تعمیر ہوئی تھی تو یہاں کوئی سڑک نہیں تھی۔اس کے چاروں طرف سڑکیں بعد میں تعمیر کی گئی ہیں، لیکن اب اس مسجد کا وجود ہی مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس مسجد کا بھی سروے ہوچکا ہے جس میں متعلقہ افسران نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مذہبی ڈھانچے کو ہٹانے یا منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دہلی میں کئی مقامات پر سڑکیں چوڑی کرنے کی غرض سے مزاروں کو منہدم کیا جاچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہی سب کچھ دیگرمذاہب کی عبادت گاہوں کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے؟
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون مجریہ 1991موجود ہے تو پھر عدالتیں مسجدوں کے خلاف عرضیاں کیوں قبول کررہی ہیں؟قابل غور بات یہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے میں جب ذیلی عدالت میں یہ دلیل دی گئی تھی تو عدالت نے کہاتھا کہ یہ قانون عبادت گاہوں کے سروے سے نہیں روکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری عدالتیں اتنی سادہ لوح ہیں کہ وہ ان کوششوں کے پیچھے کارفرما مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔؟