Jadid Khabar

چیتن سنگھ اور مونو مانیسرکا راج

Thumb

 چیتن سنگھ اور مونو مانیسر اس ہفتہ کے دوایسے کردار ہیں، جنھوں نے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت اور مسلم دشمنی کی اصل تصویر پیش کی ہے۔حالانکہ یہ تصویر نئی نہیں ہے۔اس میں ایک عرصے سے رنگ بھرے جارہے ہیں۔ فرقہ پرست انتظامیہ اور گودی میڈیا مسلسل ان رنگوں کو پختہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ہرروز ملک میں کہیں نہ کہیں ہندوستان کی ہوش ربا ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ملک میں خانہ جنگی جیسی صورتحال کیوں پیدا ہورہی ہے۔ ظلمو ناانصافی میں روزبروز اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ ایک حکمراں کا سب سے بڑا کام اپنی رعایا کو ہر قسم کے ظلم واستحصال سے نجات دلاکر ان ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا ہے، لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ سلگتے ہوئے موضوعات پر کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔
 چیتن سنگھ اور مونو مانیسر نے مہاراشٹر اور ہریانہ میں جو کچھ کیا ہے، وہ دراصل اس نفرت کا ہی نتیجہ ہے جو  ملک میں مسلمانوں کے خلاف بلا روک ٹوک پھیلائی جارہی ہے۔ جی آر پی کانسٹبل چیتن سنگھ نے جہاں اپنی سرکاری رائفل سے تین باریش مسلمانوں کوٹارگیٹ کلنگ کا شکار بنایا ہے تو وہیں مونو مانیسر نے ہریانہ کے میوات میں نفرت کی ایسی آگ لگائی ہے کہ اس کی زد میں اب تک نصف درجن سے زیادہ بے گناہوں کی جانیں آچکی ہیں۔ چلتی ٹرین میں مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ قرار دے کر ان پر اندھا دھند فائرنگ کرنے والے کانسٹبل کا ذہنی مریض ثابت کرنے کی جان توڑکوشش کی جارہی ہے تاکہ سرکاری رائفل کو مسلم دشمنی کے الزام سے بچایا جاسکے۔ اگر اس کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا اور مرنے والے اکثریتی فرقہ کے ہوتے تو اب تک اس کے رشتے دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیموں سیجوڑے جاچکے ہوتے، لیکن چیتن سنگھ چونکہ’دیش بھکت‘ ہے اس لیے اسے عبرتناک سزا سے بچانے کے لیے اس کے دماغ میں سوعیب ڈھونڈنے کی کوششیں جاری ہیں۔ابھی یہ پتہ لگایا جانا باقی ہے کہ اس ملک میں کتنے اور لوگوں کا دماغی توازن خراب ہے۔ چیتن سنگھ کی بندوق سے نکلنے والی نفرت کی گولیاں گودی میڈیا کے کارتوس معلوم ہوتی ہیں، کیونکہ چیتن سنگھ نے گولیاں برساتے ہوئے اس میڈیا پروپیگنڈے کا بھی ذکر کیا ہے جو رات دن گودی میڈیا کے چینلوں پر مسلمانوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔
چیتن سنگھ کی کہا نی آگے چل کربیان ہوگی،آئیے پہلے ہریانہ کے ضلع نوح کا رخ کرتے ہیں، جہاں سنگھ پریوار کی آنکھوں کے دلارے مونو مانیسر نے دہشت مچارکھی ہے۔گزشتہ پیر کو وہاں مونو کی پہل پر نکالی گئی ’برج منڈل یاترا‘کے دوران کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کی گئی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا جس کے نتیجے میں چھ بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں میں ایک مسجد کا نوجوان امام بھی شامل ہے جسے رات کی تاریکی میں بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ مونو مانیسر ہریانہ سرکار کی سرپرستی میں کہیں روپوش ہے، لیکن وہ پولیس کی دسترس سے باہر ہے۔حالانکہ وہ گودی میڈیا کے چینلوں کو بے خوف ہوکر انٹرویو دے رہا ہے، لیکن پولیس اس پر ہاتھ نہیں ڈال رہی ہے۔مونو مانیسر پر راجستھان کے دونوجوانوں جنید اور ناصرکو اغوا کرکے انھیں زندہ جلانے کا الزام ہے۔ راجستھان کی پولیس اس کی تلاش میں نہ جانے کب سے دبش دے رہی ہے، لیکن وہ ہریانہ سرکار کی مہمان نوازی کا لطف اٹھارہا ہے۔ پیر کو نوح میں ہوئے تشدد کی آگ ایک ویڈیو جاری کرکے مونو ہی نے بھڑکائی تھی۔ مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی گئیں تھیں مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی نظم ونسق قایم رکھنے کے لیے کوئی پیش بندی کی گئی۔پیر کو نوح میں برپا ہوئے تشدد کے تعلق سے ہریانہ میں نظم ونسق کی لولی لنگڑی مشنری پر ڈھیروں سوال اٹھ رہے ہیں، لیکن کسی کا جواب نہیں دیا جارہا ہے۔
یہ سوال تو خود مرکزی وزیرراؤ بریندر سنگھ نے اٹھایاہے کہ آخر برج منڈل یاترا کے دوران ہتھیار کہاں سے آئے؟راؤ بریندر سنگھ گروگرام سے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور حالیہ تشدد کی آنچ ان کے علاقہ تک بھی پہنچی ہے جہاں انجمن مسجد کے نوجوان امام محمدسعد کو بڑی سفاکی اور بربریت کے ساتھ مسجد کے ہجرے میں ہی قتل کیا گیا ہے۔راؤ بریندر سنگھ نے برج منڈل یاترا میں ہتھیاروں کی نمائش کے تعلق سے کہا ہے کہ ”اگر کوئی تلوار اورڈنڈے لے کرمذہبی یاترا کرتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ راؤ بریندر سنگھ نے انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”اس یاترا میں لے جانے کے لیے انھیں ہتھیار کس نے فراہم کئے تھے؟یاتراؤں میں کون اس طرح لاٹھی، ڈنڈے اور تلواریں لے کرجاتا ہے؟“نوح میں تشدد کے بعد ہریانہ کے کئی علاقوں میں مسجدوں اور مسلمانوں پر حملے کئے گئے ہیں۔ ان واقعات کے بعدمزدور پیشہ مسلمان بڑی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نوح کے واقعات کے سلسلہ میں بڑی تعداد میں جو یک طرفہ گرفتاریاں کی گئی ہیں، اس سے مسلمانوں میں زبردست خوف وہراس پھیلا ہواہے۔درجنوں مسلمانوں پر قتل کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔
اب آئیے ایک نظر مہاراشٹر کے پال گھر میں ہوئی سنگین وارادات پر ڈالتے ہیں، جہاں جے پور سے ممبئی جارہی سپرفاسٹ ایکسپریس میں جی آرپی کے وردی پوش کانسٹبل نے اپنے ایک سینئر افسر ٹیکا رام مینا اور تین دیگر مسلم مسافروں کو ان کی داڑھیوں سے شناخت کرکے گولیوں سے بھون ڈالا۔سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چیتن سنگھ شلو ار کرتے میں ملبوس ایک باریش مسلمان کو گولی مار کر اس کی تڑپتی ہوئی لاش کے سامنے کہہ رہا ہے کہ”اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہوگا۔“جن مسلمانوں کو چیتن سنگھ نے گولیوں کا نشانہ بنایا، ان کی شناخت اصغر عباس علی (مدھوبنی، بہار) عبدالقادر محمدحسین (مہاراشٹر)اور سید سیف اللہ (حیدرآباد) کے طورپر ہوئی ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ چلتی ٹرین میں کسی وردی پوش کانسٹبل نے یوں تین مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر درندگی سے قتل کیا ہے۔چیتن سنگھ نے انھیں قتل کرتے وقت مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کہا ہے، وہ دراصل اس فرقہ وارانہ مسلم دشمن پروپیگنڈے کا اثر ہے جو کافی عرصے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سپریم کورٹ باربار اس کے خلاف حکومت کو متنبہ کرچکا ہے، لیکن حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی میکانزم تیار نہیں کیا جس کے بل پر اس بے ہودہ اور منافرانہ پروپیگنڈے کاسدباب کیا جاسکے۔
 پورے ملک میں اس وقت مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت پھیلادی گئی ہے کہ ایک ذرا سی چنگاری ہی پورے نشیمن کو خاکستر کردینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن حکومت اور اس کی مشنری کو اس کی قطعی پروا نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ اس پروپیگنڈے میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں انھیں سرکاری مشنری تحفظ فراہم کررہی ہے۔ چیتن سنگھ اور مونو مانیسر کے حوالے سے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔ چلتی ٹرین میں ہوئی انتہائی سنگین واردات کے بعد ایس آئی ٹی کی تحقیقات کا محور یہ ہے کہ چیتن سنگھ ذہنی بیماری کا شکار تھا۔ بجائے اس کے کہ چیتن سنگھ کو عبرتناک سزا دینے کی تیاری کی جاتی تحقیقاتی ٹیم چیتن سنگھ کے دماغ کی جانچ کرانے میں مصروف ہے تاکہ اسے ذہنی مریض قرار دے کر سزا سے بچایا جاسکے۔مونو مانیسر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے اس شرپسند کے ویڈیو نے ہی نوح میں آگ لگائی اور پورے ہریانہ کو فرقہ واریت کی بھٹی میں جھونک دیا، لیکن ابھی تک ہریانہ سرکار نے اس کو گرفتار کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے راجستھان پولیس سے کہا ہے کہ وہ مونو کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں چیتن سنگھ اور مونو مانیسر جیسے لوگوں کا راج ہے۔