بالاسور ٹرین حادثے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انڈین ریلوے کی تاریخ میں ایسے بھیانک حادثے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اپنی وسعت اور ہلاکتوں کے اعتبار سے ہی نہیں اپنی نوعیت اور المیہ کے اعتبار سے بھی یہ اتنا خوفناک ہے کہ اسے پوری طرح الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔تین ٹرینوں کی ٹکّر میں اب تک تقریباً 300لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اورایک ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ریلوے کو اس حادثے سے 100کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ بچاؤ کا کام کررہے بعض لوگ اس قدر صدمے میں ہے کہ ان کی ذہنی حالت بگڑ گئی ہے۔ این ڈی آرایف کے سربراہ اتل کروال کا کہنا ہے کہ”جائے حادثہ پر تعینات بچاؤ ٹیم کا ایک ممبر جب کہیں پانی دیکھتا ہے تو اسے وہ خون نظر آتا ہے۔“
اس حادثے میں یوں تو غور وفکر کے کئی پہلو ہیں،لیکن اس میں حکومت کا ردعمل سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ مودی سرکار کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ہرقسم کی جوابدہی سے پاک ہے۔ وہ ہرمسئلہ کے لیے پچھلی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیتی ہے اور اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لیے ہر چیز میں سازش کا پہلو تلاش کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حادثہ کی جانچ ریلوے ماہرین کے سپرد کرنے کی بجائے سی بی آئی کو سونپی گئی ہے، جو ملک میں بدعنوانی اورسنگین جرائم کی جانچ کے لیے بنائی گئی ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے بالاسور حادثے کی سی بی آئی جانچ کرائے جانے پر سخت تنقید کی ہے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ سی بی آئی جانچ درحقیقت اس معاملے میں احتساب کو صفر کئے جانے کی کوشش ہے۔ سینئر پارٹی لیڈر جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ سی بی آئی جانچ شہ سرخیوں کے انتظام کے سوا کچھ نہیں ہے“۔انھوں نے کہا کہ”کمشنر آف ریلوے سیفٹی نے بالاسور حادثہ پر اپنی رپورٹ بھی پیش نہیں کی ہے کہ سی بی آئی انکوائری کا اعلان کردیا گیا ہے“۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کے دیگر محکموں کی طرح ریلوے بھی بدعنوانی سے پاک نہیں ہے، لیکن اس حادثے میں کہیں بھی سازش کا پہلو نظر نہیں آتابلکہ مجرمانہ لاپروائی ضرور نظر آتی ہے اور اس کا سراغ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو ریلوے کے پورے نظام کی جانکاری رکھتے ہوں،لہٰذا اس کی جانچ تکنیکی ماہرین کو سونپی جانی چاہئے تھی، کیونکہ حادثے میں کئی ایسے تکنیکی پہلو ہیں جن کی جانچ سی بی آئی نہیں کرسکتی۔سی بی آئی کو اس نظام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے، اس لیے وہ اس جانچ کے دوران اندھیرے میں ہاتھ پاؤں چلانے کے سوا کچھ نہیں کرے گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ20/نومبر 2016کو اندور۔پٹنہ ایکسپریس کانپور کے نزدیک پٹری سے اترگئی تھی، جس میں 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت کے ریلوے وزیر سریش پربھو نے بھی ایسی ہی حماقت کی تھی۔انھوں نے اپنے محکمے کی نااہلی کا پتہ لگانے کی بجائے وزیرداخلہ کو خط لکھ کر اس حادثے کی جانچ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے)سے کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔اس وقت وزیراعظم نے بھی کانپور ٹرین حادثے کو ایک سازش سے تعبیر کیا تھا، لیکن اکتوبر2018میں یہ خبریں آئیں کہ این آئی اے اس معاملے میں کوئی فردجرم داخل نہیں کرے گی۔ یہی ہو ابھی۔ آج تک اس حادثہ کی کوئی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر نہیں آسکی ہے اور نہ ہی اس کی جوابدہی طے ہوسکی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ این آئی اے ملک میں دہشت گردی سے متعلق واقعات کی جانچ کے لیے بنائی گئی ہے۔ ٹرین حادثے میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہوتا ہے کہ ان تکنیکی وجوہات کا پتہ لگایا جائے، جن کی وجہ سے حادثہ ہوا ہے اور یہ کام متعلقہ محکمہ کے ماہرین ہی انجام دے سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے کانپور حادثے کی این آئی اے سے کرائی گئی بے نتیجہ تحقیقات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے بالاسور حادثے کی جانچ سی بی آئی کے سپرد کی ہے تاکہ معاملے کی لیپا پوتی کی جاسکے۔حالانکہ سی بی آئی جانچ کے اعلان سے پہلے ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے حادثے کی وجوہات اور اس کے لیے ذمہ دار لوگوں کی شناخت کرلی ہے، تاہم انھوں نے چند گھنٹے بعد ہی سی بی آئی جانچ کی سفارش کرکے سب کو چونکا دیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ سی بی آئی اپنی جانچ میں الیکٹرانک انٹرلاکنگ سسٹم میں کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کا جائزہ لے گی۔حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریلوے کے جدید ترین نظام میں کسی تخریب کاری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ریلوے بورڈ کے سابق رکن وی این ماتھر کا کہنا ہے کہ ”اب ریلوے کی آمد ورفت جدیدترین تکنیک کی مدد سے ہورہی ہے،جو صدفی صد محفوظ ہوتی ہے۔اس میں دور بیٹھا کوئی شخص سسٹم میں دخل اندازی نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ نظام انٹرنیٹ کی مدد سے نہیں چلایا جاتا ہے۔ یہ مقامی سطح پر کنٹرول ہوتا ہے اور اسٹیشن کے نزدیکی علاقوں میں کام کرتا ہے۔“اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریلوے کے تکنیکی نظام میں کوئی مداخلت ممکن ہی نہیں ہے۔
مودی سرکار کا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ وہ صرف اچھے دنوں کی سرکار ہے۔ اگر ملک کے عوام پر سرکاری نظام کی خامیوں یا بدعنوانی کی وجہ سے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے اسباب اندرونی نظام میں تلاش کرنے کی بجائے،اس کا قصور دوسروں کے سرڈالتی ہے۔ بالاسور کے بھیانک ٹرین حادثے کے لیے بھی وہ قربانی کے بکروں کی تلاش میں مصروف ہے۔ سب سے پہلے اس میں فرقہ وارانہ پہلو ڈھونڈنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ حادثہ چونکہ جمعہ کے دن ہوا تھا، اس لیے اسے سوشل میڈیا کے ذریعہ جمعہ کی نماز سے بھی جوڑا گیا۔جائے حادثہ کے قریب موجود ’اسکان مندر‘کو مسجد بتاکر اور قریبی ریلوے اسٹیشن کے ماسٹر بی ایس موہنتی کو محمدشریف بتاکر فرقہ پرستوں نے نفرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس معاملے میں اگراڑیسہ پولیس بروقت حرکت میں نہ آتی اور وہ سوشل میڈیا پر شرپھیلانے والوں کے خلاف وارننگ جاری نہ کرتی تو اب تک نہ جانے کتنی کہانیاں وجود میں آچکی ہوتیں اور ملک کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جوالا مکھی کھڑا ہوچکا ہوتا۔
بالاسور حادثے کے بعد مہلوکین کی لاشوں کے ساتھ جو نازیبا سلوک کیا گیا، اسے دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ ارزاں انسانوں کی زندگی ہے۔ ایسی کئی ویڈیوز منظرعام پر آئی ہیں جن میں لاشوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ ٹرکوں میں ڈالا جارہا ہے۔ گویا وہ انسان نہ ہوں، گاجر مولی ہوں۔ ایک طرف ہم ملک کے اندر بلٹ ٹرین چلانے کی تیاریاں کررہے ہیں اور دوسری طرف کوئی حادثہ ہوجانے کی صورت میں ہمارے پاس بچاؤ کاموں کے لیے انتظامات انتہائی ناقص ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں ایسے حادثات ہوتے ہیں، وہاں بچاؤ ٹیموں کے پاس ایسی گاڑیاں اور آلات ہوتے ہیں کہ وہ نہایت سلیقے اور ہنرمندی کے ساتھ اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ مگر دنیا میں سب سے بڑی آبادی کا درجہ حاصل کرچکے ہمارے ملک کے پاس بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی نہیں ہیں۔سیاسی قیادت ہرقسم کی جوابدہی سے آزاد ہے۔ بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حادثہ اڑیسہ میں ہوا اور صوبائی وزیراعلیٰ نوین پٹنائک سے پہلے جائے حادثہ پر مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی پہنچیں۔ماضی میں ہوئے بھیانک ریل حادثوں پر کم ازکم تین ریلوے وزیروں نے استعفے دئیے ہیں، لیکن مودی سرکارمیں ابھی تک ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ اسی لیے ریلوے وزیر اشونی وشنو نے اس حادثے پر چار آنسو تو بہائے لیکن اس خوفناک حادثے کی اخلاقی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اگر ان میں تھوڑی بھی حیا ہوتی تو وہ اب تک مستعفی ہوچکے ہوتے۔
masoom.moradabadi@gmail.com