پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اورسابق وزیراعظم عمران خان کو سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد رہا ضرور کردیا گیا ہے، لیکن سیاسی مخالفین انھیں دوبارہ گرفتار کرنے کے خواہش مند ہیں۔گزشتہ بدھ کو انھیں اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں گرفتار کرلیا گیا تھا، جب وہ القادر ٹرسٹ معاملے میں ضمانت حاصل کرنے حاضر ہوئے تھے۔ ان کی گرفتاری کے خلاف پاکستان کے مختلف صوبوں میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور دس سے زیادہ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ تحریک انصاف کے ہزاروں احتجاجی کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی گرفتاری قومی احتساب بیورو نے بدعنوانی کے سنگین الزامات کے تحت کی تھی، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں انھیں پاکستانی رینجروں نے جس وحشیانہ انداز میں حراست میں لیا، اس سے صاف ظاہر تھا کہ اس میں فوج کا ہاتھ تھا جو انھیں سبق سکھانے کا انتظار کررہی تھی۔ لیکن پانسہ پلٹ گیا اور چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو’ناجائز اور غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کو ان کی ضمانت عرضی پر سماعت کرنے کی ہدایت دی۔ہائی کورٹ نے انھیں دوہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کردیا ہے۔سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے عدالت میں ان کی گرفتاری پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر90 رینجرز عدالت میں داخل ہوجاتے ہیں تو پھر عدالت کا وقار کہاں باقی رہتا ہے۔ عدالت میں کسی شخص کو کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟“عمران نے رہائی کے بعد کہا کہ ہے کہ ”ہم ملک کے اندر لاقانونیت نہیں بلکہ صرف الیکشن چاہتے ہیں۔عمران نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ”مجھے اغوا کرکے میرے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا گیا۔“
اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے عمران کی رہائی کے احکامات دے کر پاکستان کو ایک بڑی آزمائش سے بچالیا ہے، ورنہ جس انداز میں وہاں پرتشدد مظاہرے اور توڑپھوڑ شروع ہوئی تھی، اس کے ڈانڈے خانہ جنگی سے ملتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ سب سے سنگین بات یہ تھی کہ پہلی بار راولپنڈی میں واقع فوج کے ہیڈکوارٹر اور فوجی افسران کے گھروں پر حملہ کیا گیا۔یہ پاکستانی فوج کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جس نے اس کے ہوش اڑادئیے ہیں۔اس حملے کے سلسلے میں ڈیڑھ ہزار لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں اور فوج نے مظاہرین کو سخت وارننگ جاری کی ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ عمران کی گرفتاری کے پیچھے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان کے خلاف کارروائی عمل میں آئی ہے۔ دوماہ پہلے بھی انھیں لاہورمیں گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تھی، جسے ان کے حامیوں نے ناکام بنادیا تھا۔عمران خان اس وقت اپنی زندگی کے سب سے نازک دور سے گزررہے ہیں۔ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ ان کے خلاف کم وبیش ۰۴۱ مقدمات کا قایم ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں جس وقت انھیں حراست میں لیا گیا تب وہ القادر ٹرسٹ معاملے میں ضمانت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پاکستانی رینجروں نے انتہائی ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرکے عادی مجرموں کو لے جانے والی ایک وین میں زبردستی ٹھونس دیا۔ ان کی گرفتاری کے طریقہ کار پرقومی اور بین الاقوامی سطح پرسخت تنقید ہوئی ہے۔ لوگ یقین نہیں کرپارہے ہیں کہ فوجی جوانوں نے یہ شرمناک بدسلوکی اس شخص کے ساتھ کی ہے جو کسی زمانے میں اپنے ملک اور پوری دنیا کے کرکٹ شائقین کا ’ہیرو‘ رہ چکا ہے۔جو ایک سال پہلے تک ملک کا وزیراعظم تھا اور جس کے حکم کے بغیر پتہّ بھی نہیں ہلتا تھا۔ لیکن پاکستانی سیاست جس اوندھی ڈگر پر چلتی رہی ہے، اس میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کی جو روایت چلی آرہی ہے، اس کے پیش نظر عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے سابق صدرجنرل ضیا الحق نے اپنے سیاسی حریف سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔
عمران خان کو گزشتہ سال تمام ہی اپوزیشن پارٹیوں نے متحد ہوکر تحریک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔ اس کے بعدحکمراں اتحاد نے انھیں ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کی۔ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی لائن لگ گئی اور انھیں راستے سے ہٹانے کی کوششیں تیزتر کردی گئیں۔ دوماہ قبل وہ ’لانگ مارچ‘ کے دوران ایک انتہائی خطرناک قاتلانہ حملہ میں بال بال بچ گئے تھے۔اسی وقت لوگوں کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ عمران خان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔خود انھیں اپنی جان کا خوف مسلسل ستارہا تھا۔ اپنی گرفتاری کے بارے میں وہ جن خدشات کا اظہار کررہے تھے، وہ بے جا نہیں تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی سے قبل جاری ویڈیو پیغام میں انھوں نے کہا تھا کہ ”آئی ایس آئی میرا قتل کرانا چاہتی ہے۔ ان کی غلامی سے تو موت بہتر ہے۔“ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”پاکستان میں بنیادی آئینی حقوق اور جمہوریت دفن ہوچکی ہے۔ پاکستانی قوم مجھے پچھلے پچاس سال سے جانتی ہے۔ میں نہ کبھی آئین کے خلاف گیا اور نہ پاکستان کا قانون توڑا۔“
عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے جس ’القادر ٹرسٹ‘ معاملے میں گرفتار کیا تھا، اس کی آئینی حیثیت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کرنا ہے۔ان پر الزام ہے کہ ایک یونیورسٹی کھولنے کے لیے تشکیل دئیے گئے اس ٹرسٹ کوعمران خان نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے غلط طریقے سے زمین الاٹ کی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ’القادر ٹرسٹ‘کے دوہی ممبران ہیں یعنی ایک عمران اور دوسری ان کی اہلیہ۔ الزامہیکہ عمران اور ان کی اہلیہ نے بحریہ ٹاؤن کے کرتا دھرتا ملک ریاض سے سازباز کے سرکاری خزانے کو زبردست نقصان پہنچایا۔ان پر ساٹھ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا بھی الزام ہے۔
یوں تو عمران خان کے خلاف سیکڑوں مقدمات زیرسماعت ہیں، لیکن جن پانچ مقدمات میں ان کی گردن بری طرح پھنسی ہوئی ہے، ان میں پہلا معاملہ توش خانے کا ہے۔الزام ہے کہ انھوں نے توش خانہ سے سستے داموں پر سامان خرید کر اسے مہنگے داموں پر فروخت کردیا۔دوسرا معاملہ غیرملکی زرمبادلہ آرڈی نینس کی خلاف ورزی کا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے ووٹن کرکٹ لمٹیڈ کے مالک سے اپنی پارٹی کے کھاتوں میں رقم ٹرانسفر کروائی۔ تیسرا معاملہ لیک آڈیو ٹیپ کا ہے، جس میں پاکستانی کابینہ نے لیک ہوئی آڈیو فائلوں کو لے کر معاملہ درج کیا ہے۔ چوتھا معاملہ آزادی مارچ کے دوران ہوئے فسادات سے متعلق ہے، جبکہ پانچواں مقدمہ ایک خاتون جج کو دھمکانے سے متعلق درج کیا گیا ہے۔ یہ پانچوں ہی مقدمات اپنی نوعیت کے اعتبار سے سنگین ہیں۔
عمران خان جب وزیراعظم بنے تھے تو ان سے عوام وخواص کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔خود انھوں نے ایک نئے پاکستان کی تشکیل وتعمیر کا نعرہ دیا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ان تمام جھمیلوں میں پھنستے چلے گئے جن میں ان سے پہلے کے سیاست داں پھنستے رہے ہیں۔ لوگوں کو امید تھی کہ ایک نئی قیادت پاکستان کو نیا راستہ دکھائے گی اور اسے پٹری پر واپس لائے گی، لیکن تمام امیدیں خاک ہوتی چلی گئیں۔ ان کی ناکامی میں سب سے زیادہ ہاتھ ان کی ناتجربہ کاری کا تھا۔زبردست عوامی حمایت اور فوج کی سرپرستی کے باوجود وہ اپنا جلوہ قایم نہیں کرسکے۔ انھوں نے اپنے پیش رو سیاست دانوں کی طرح انتقامی سیاست کا سہارا لیااور سیاسی سوجھ بوجھ کے فقدان کی وجہ سے کئی محاذ ایک ساتھ کھول دئیے۔نوازشریف اور آصف زرداری سے الجھنے کے ساتھ ہی انھوں نے اس فوج سے بھی عداوت مول لے لی، جو پاکستان کی سیاست کا ریموٹ کنٹرول کہی جاتی ہے۔آگ میں گھی ڈالنے کا کام ان کے جس بیان نے کیا اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ”پاکستانی فوج ہندوستان کے خلاف جنگ لڑنے کی اہل نہیں ہے۔“شاید یہی وہ بیان تھا جس نے ان کی سیاسی تقدیر کو زنگ لگادیا۔
افسوس کہ پاکستانی عوام نے اپنے ملک کو دلدل سے نکالنے کا جو سنہری موقع عمران خان کوفراہم کیا تھا، وہ انھوں نے اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے گنوادیا۔اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد بھی ان میں دوراندیشی پیدا نہیں ہوسکی۔ سب سے بڑی بھول یہ ہے کہ وہ قانونی اور سیاسی لڑائی کو بھی بے لگام بھیڑ کی مدد سے جیتنا چاہتے ہیں۔ اب ان کی راہ میں اتنے کانٹے بچھادئیے گئے ہیں کہ شاید ہی وہ دوبارہ پاکستانی سیاست میں کوئی رول ادا کرسکیں۔حکومت اور فوج نے ان کے حامیوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے اور پورے ملک میں امتناعی احکامات نافذ کردئیے ہیں۔ بہرحال عمران خان کی گرفتاری اور رہائی نے پاکستان میں جوسیاسی اتھل پتھل پیدا کی ہے، اس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔پاکستان آہستہ آہستہ انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب بھوک، افلاس،غریبی، بے تحاشہ مہنگائی اورلاقانونیت نے اس ملک کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچ رہا ہے جو وہاں ہمیشہ سے پل صراط پر چلتی رہی ہے۔جمہوریت ایک بار پھر لہولہان ہے اور وہاں ایمرجنسی نافذ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔