Jadid Khabar

بی جے پی کامسلم مخالف بیانیہ اور کرناٹک چناؤ

Thumb

کرناٹک کے لیے جاری اپنے انتخابی منشور میں بی جے پی نے یکساں سول کوڈ اور این آر سی نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان دونوں ہی وعدوں کا تعلق ترقی کے ایجنڈے سے نہیں ہے بلکہ یہ دونوں مسلمانوں کو ایذا پہنچانے والے نعرے ہیں۔ کرناٹک چناؤ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں بی جے پی اپنے ہوش وحواس ہی کھوبیٹھی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ کرناٹک جنوبی ہند کی ایک ایسی ریاست ہے جس کی سرحد کسی بھی پڑوسی ملک سے نہیں ملتی، لیکن اس کے باوجود یہاں این آرسی نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ این آر سی دراصل سرحدی ریاستوں میں غیرقانونی تارکین وطن کو شناخت کرنے کا ایک قانون ہے۔سوال یہ ہے کہ جب کرناٹک میں غیرقانونی تارکین وطن کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے تو پھر وہاں این آر سی کیوں نافذ کیا جائے گا؟ سوال تو اور بھی ہیں جو بی جے پی کی انتخابی مہم کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ مثال کے طورپر جب وزیراعظم کرناٹک کے انتخابی جلسوں میں کانگریس پر بجرنگ بلی کا نام لینے پر پابندی عائد کرنے کا الزام لگاتے ہیں تو ان کا روئے سخن کانگریس کے انتخابی منشور میں بجرنگ دل پابندی عائد کرنے کے وعدہ کی طرف ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بدترین فرقہ پرست اور اقلیت مخالف تنظیم بجرنگ دل سے ان کا کیا رشتہ ہے، جو اس پر پابندی عائد کرنے کے وعدے پروزیراعظم اتنے چراغ پا ہیں۔حالانکہ کانگریس لیڈر ویرپا موئلی نے بجرنگ دل پر پابندی عائد کئے جانے سے انکار کیا ہے،لیکن بی جے پی کی ریلیوں میں بجرنگ بلی کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے۔ دراصل کرناٹک اسمبلی انتخابات کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آرہی ہیں، ویسے ویسے بی جے پی کی گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ رہی ہے۔چناؤ سے قبل اب تک جتنے بھی سروے آئے ہیں، ان میں بی جے پی کی ناکامی کی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں۔ حالانکہ انتخابی نتائج آنے سے قبل کوئی بھی پیش قیاسی مح ض اندازوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ روایت تو خود بی جے پی کی ہی ڈالی ہوئی ہے کہ وہ ہر الیکشن سے پہلے ہی الیکشن کا رجحان ظاہر کرادیتی ہے، تاکہ اس کے مخالفین کے حوصلے پست ہوں،مگر اس بار بی جے پی کا داؤالٹا پڑگیا ہے۔ یہ پیشین گوئیاں زمینی حالات کے پیش نظر کی جارہی ہیں، کیونکہ کرناٹک میں رشوت ستانی اوربدعنوانی کا جو ریکارڈ بی جے پی کے اقتدار میں قایم ہوا ہے،وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔کانگریس کھلے عام بی جے پی کی ریاستی حکومت کو ’چالیس فیصد‘ کی حکومت کہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی اور حصولیابیوں کے میدان میں صفر ہونے کی وجہ سے بی جے پی کرناٹک میں ہندو کارڈ کھیلنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔اس کھیل میں اس کا سب سے بڑا نشانہ ہمیشہ کی طرح مسلمان ہیں۔ یہ بی جے پی کا آزمودہ فارمولاہے۔ جہاں کہیں اسے اپنی شکست نظرآتی ہے، وہاں وہ مسلمانوں کو نشانہ بناکر ہندو ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس معاملہ میں اس کا ’ترقی کا ایجنڈا‘اور’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کا نعرہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ یہی اس وقت کرناٹک میں ہورہا ہے۔ وہ پوری طاقت سے کرناٹک کے چناؤ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں لگی ہوئی ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کا اندازہ اسی وقت ہوگیا تھا جب اس نے اوبی سی مسلمانوں کے حاصل چار فیصد ریزرویشن کوختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔یہ ریزرویشن تقریباً بیس برس سے جاری تھا اور اوبی سی مسلمانوں کو ان کی معاشی، سماجی اورتعلیمی پسماندگی کی بنیادپر دیا گیا تھا۔ اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں تھا، لیکن بی جے پی نے اپنے ہندتو کے ایجنڈے کو اس ریزرویشن کو مذہبی بنیاد پر دیا گیا ریزرویشن قرار دے کر اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور آخرکار اس کو ختم کرکے ریاست کی دودیگر برادیوں کے درمیان تقسیم کردیا۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس درمیان بی جے پی کئی بار اقتدار میں رہی لیکن اس نے کبھی اوبی سی مسلمانوں کے ریزرویشن پر سوال نہیں کھڑا نہیں کیا، لیکن اس بار الیکشن قریب آتے ہی اس نے ’مسلم ریزرویشن‘کو انتخابی میدان کا سب سے بڑا موضوع بنانے کی ایسی کوشش کی کہ ہر بی جے پی لیڈر کی زبان پر یہی موضوع تھا۔ مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے تو اس کو اپنا تکیہ کلام بنالیا ہے اور وہ اس قدر جوش میں ہیں کہ انھوں نے تلنگانہ میں بھی مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ وہاں چناؤ ابھی دور ہے۔ وزیرداخلہ مت شاہ نے تو کرناٹک کے رائے دہندگان کو کا نگریس سے خوفزدہ کرنے کے لیے یہاں تک کہہ ڈالاکہ اگر کانگریس کرناٹک میں اقتدار میں آئی تو یہاں فسادات برپا ہوں گے۔ اس بیان پر کانگریس نے وزیرداخلہ کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرائی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس شخص کے کاندھوں پر ملک کی اندرونی سلامتی کی ذمہ داری ہے، وہ الیکشن کے میدان میں سیاسی فائدے کے لیے کھلے عام فرقہ وارانہ زبان استعمال کرتا ہے۔ کیا وزیرداخلہ کو یہ زبان اور لب ولہجہ زیب دیتا ہے؟ملک کی تاریخ میں شاید ہی کسی وزیرداخلہ نے ایسی ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہو۔ کرناٹک کی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے تمام ہی لیڈروں کی زبان ایک جیسی ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے توریزرویشن کے حوالے سے یہاں تک کہہ ڈالا کہ جب مذہب کی بنیاد پرملک کا تقسیم ہوچکا ہے تو پھر مسلمانوں کو ریزرویشن کیسا؟ مسلم ریزرویشن کے خلاف مرکزی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی بیان دیا۔یہ تمام بیانات اور لن ترانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بی جے پی کرناٹک میں پوری بے شرمی کے ساتھ ہندو کارڈ کھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا نتیجہ تو آئندہ 13 /مئی کو اس وقت سامنے آئے گا جب ا س الیکشن کے نتائج برآمد ہوں گے، لیکن بی جے پی کے اس مسلم مخالف بیانیہ کی وجہ سے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو جو نقصان پہنچے گا، اس کی بھرپائی کیسے ہوگی۔ظاہر بی جے پی کو اس کی قطعی فکر نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ جتنا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ پیدا ہوگی، اسے اتنا ہی سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کرناٹک میں کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگارہی ہے تاکہ ہندوؤں کے درمیان یہ پیغام جائے کہ کانگریس مسلمانوں کی ہمدرد ہے اور بی جے پی ہندوؤں کی۔ حیرت انگیز بات یہ کہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام ایک ایسی پارٹی کی طرف سے لگایا جاتا ہے جو خودکوپوری طرح ہندوؤں کی پارٹی کہتی ہے اور کھلے عام ہندوؤں کے حق میں بیانات دیتی ہے۔ اب یہی دیکھئے نا کہ کرناٹک کے انتخابی منشور میں بی جے پی نے ریاست کے مندروں کے گردوپیش مناسب ماحول اور انھیں مکمل خومختاری فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ مندروں کی معیشت کومحفوظ بنانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ مندروں کی معیشت کو محفوظ بنانے کا وعدہ اس پس منظر میں کیا گیا ہے کہ پچھلے دنوں ہندو گروپوں نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ مندروں کے گردونواح میں مسلم دکانداروں کو کاروبار کرنے سے روکا جائے۔ کرناٹک میں معاملہ حجاب پر پابندی کا ہو یا گاؤ کشی کے خلاف قانون سازی کا یا پھر نام نہاد ’لوجہاد‘ یاپھر مسلم ریزرویشن ختم کرنے کا،یہ سب بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کا حصہ ہیں اور ان کا واحد مقصد فرقہ پرست رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔اس کے برعکس جب کانگریس اپنے انتخابی منشور میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی اور بجرنگ دل و پاپولر فرنٹ جیسی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کی بات کرتی ہے تو اس پر بی جے پی کی تلملاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ masoom.moradabadi@gmail.com