Jadid Khabar

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھاکے چلے

Thumb

آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت یوں تومسلمانوں کے بارے میں اکثر بیان دیتے رہتے ہیں اورانھیں طرح طرح کی نصیحتیں بھی کرتے ہیں، لیکن اس بار انھوں نے مسلمانوں کوہندوستان میں امن سے رہنے کی ایک شرط رکھی ہے۔شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنے ذہن سے اپنی بالادستی کا خمار نکال دیں اور یہ بھول جائیں کہ وہ کبھی اس ملک کے حکمراں تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو اس ملک میں ایک ہزار سال سے حالت جنگ میں ہیں۔اب وہ بیدار ہو چکے ہیں اور ایسی صورت میں جارحیت فطری ہے۔ آرایس ایس کے انگریزی ترجمان ”آرگنائزر“ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھاگوت نے یوں تو کئی راگ چھیڑے ہیں لیکن ان کے جس بیان پرسب سے زیادہ ردعمل ہوا ہے وہ مسلمانوں کے لیے امن کی مشروط پیشکش ہے، جسے جمہوری عناصر نے اشتعال انگیز اور آئین مخالف قرار دیا ہے۔اس سلسلہ میں سب سے سخت ردعمل کمیونسٹ رہنما محترمہ برندا کرات کا ہے جس میں انھوں نے عدالت سے اس بیان کا ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے اور یہاں کے دستور کے مطابق ہرشہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ خاص طورپر دستور کی دفعہ 14اور15 میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ یہاں کسی بھی شہری کو مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ کچھ لوگوں کو اقتدار کا نشہ اس حد تک چڑھ گیا ہے کہ وہ خود کو تاقیامت اس ملک کے سیاہ سفید کا مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں رہنے والی اقلیتوں مسلسل ہراساں اور پریشان کیا جارہا ہے۔ان کے ساتھ دویم درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ اقلیتوں پر مظالم مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ان کی حب الوطنی پر بھی مسلسل سوالیہ نشان قایم کئے جارہے ہیں۔اس سب کے پیچھے نسلی برتری کا تصور کارفرما ہے۔آرایس ایس کے سابق سربراہ آنجہانی گولوالکر نے کہا تھا کہ اگر مسلمان ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں فرما نبردار ہونا پڑے گا۔موہن بھاگوت کے تازہ بیان میں یہی سوچ کارفرما ہے۔
بھاگوت کے تازہ بیان کا مفہوم یہہے کہ ہندوستان میں رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کو ان کی شرائط پر زندگی گزارنی ہوگی۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر خاص طورپر نشانہ بنایا کہ وہ اپنے ذہن سے یہ بات قطعی طورپر نکال دیں کہ ان کا مذہب ہی سب سے بہتر ہے۔لیکن دوسرے ہی جملے میں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندومذہب سب سے بہتر ہے۔ یعنی وہ مسلمانوں سے جس سوچ کو ترک کرنے کی بات کررہے ہیں، خوداس پر یہ کہہ کر اصرار بھی کررہے ہیں کہ ان کا مذہب ہی سب سے بہتر ہے۔جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو وہ اپنے پیروکاروں کو سکھاتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کو برا نہ کہو۔مسلمانوں نے کبھی ہندو مذہب پر کیچڑ نہیں اچھالی۔ اس کے برعکس سنگھ پریوار کے لوگ مسلسل اسلام کو مطعون کرتے رہتے ہیں اور ایسی اصطلاحیں ایجاد کرتے ہیں جو براہ راست اسلام پر حملے کے مترادف ہیں۔ ’جہاد‘کے ساتھ منفی نعروں کو اچھالنے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے۔ اسلام میں ’جہاد‘ ایک مقدس اصطلاح ہے اور اس کا مفہوم کہیں بھی منفی نہیں ہے۔ لیکن سنگھ پریوار کے لوگوں نے ’لوجہاد‘جیسے مہمل نعرے ایجاد کرکے اسلام اور مسلمانوں کی توہین کی ہے۔
 بھاگوت نے اپنے انٹرویو میں کہاہے کہ ”ہندوسماج تقریباً ہزار سال سے حالت جنگ میں ہے۔ بیرونی لوگ، بیرونی اثرات اور بیرونی سازشوں سے ان کی لڑائی جاری ہے اور لڑنا ہے تو مضبوط ہونا ہی پڑتا ہے۔“انھوں نے بھارت کو ”ہندواستھان‘‘بتاتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے اندر سدھار کرنے کی نصیحت دی۔انھوں نے کہا کہ آج ہمارے ملک میں جو مسلمان ہیں ان کو کوئی نقصان نہیں ہے،وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو رہیں‘اپنے اجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں، آئیں،یہ ان کی مرضی ہے۔ اسلام کو کوئی خطرہ ہے ہی نہیں۔ہاں انھیں یہ خیال ترک کرنا ہوگا کہ ہاں ہم بڑے ہیں اور ایک وقت ہم حکمراں تھے اور ہم پھر سے حکمراں بنیں گے۔ہم صحیح ہیں اور باقی غلط ہیں، یہ سب چھوڑنا پڑے گا۔ ہم الگ ہیں، اس لیے ہم الگ ہی رہیں گے، ہم سب کے ساتھ مل کرنہیں رہ سکتے، یہ چھوڑنا پڑے گا۔“
اس بیان کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ انھوں نے پرامن طورپر رہنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے جو شرائط پیش کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب وہ خود کو اس ملک کا اکلوتا مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ پہلے جو باتیں دھیمی آواز میں کہی جاتی تھیں وہ زور وشور سے کہی جارہی ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اب اقتدار میں ہیں۔ ملک کی باگ ڈور ان کے سیاسی بازو بی جے پی کے ہاتھوں میں ہے جو پوری طرح ان ہی کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی پابند ہے۔سیاسی طاقت کے زعم میں پچھلے آٹھ سالوں کے دوران جس انداز میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا گیا ہے، اس کا واحد مقصد انھیں اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے جان ومال کی حفاظت کی قیمت پرخودسپردگی کردیں۔یعنی آرایس ایس کی شرطوں پر جینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے مظالم سہنے کے باوجود ابھی تک مسلمانوں نے خودسپردگی نہیں کی ہے اور وہ ’خدااعتمادی اور خوداعتمادی‘کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ کچھ گندم نما جو فروش قسم کے مسلمان انھیں یہ مشورہ برابر دیتے رہتے ہیں کہ وہ ان کی طرح فسطائی طاقتوں سے ’مفاہمت‘ کرلیں۔مسلمانوں کی جان ومال، عزت وآبرو کا مالک خدا ہے اور وہ اس ایمان کامل رکھتے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمان اس ملک میں کم وبیش 800 سال تک حکمراں رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت ہندو ؤں کی مدد سے چلائی۔  ہندوان کے وزراء اور سپہ سالاروں میں کلیدی پوزیشن میں رہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہاں جو مسلمان بھی حکمراں رہے ان کا مقصد مذہبی ایجنڈا نافذ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اقتدار کے خواہاں تھے اور اپنے اقتدار کو قایم رکھنے کے لیے انھوں نے ہر اس شخص کی مدد لی جو ان کے کام آسکتا تھا۔ ایسا کرتے وقت یہ نہیں دیکھا گیا کہ سامنے والے کامذہب کیا ہے۔ ہندوستان میں جو بھی جنگیں ہوئیں ان میں بیشتر مسلم بادشاہوں کے سپہ سالار ہندو ہوتے تھے اور ہندو راجاؤں کے سپہ سالار مسلمان۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی میں ہندومسلم بادشاہوں کے درمیان جنگوں کا سبب مذہب دور دور تک نہیں تھا۔جہاں تک بھاگوت کے اس بیان کا تعلق ہے کہ مسلمان تاریخ کی بنیاد پر ماضی میں اپنے حکمراں ہونے کا خمار ذہن سے نکال دیں تو ہم انھیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان آج اس ملک میں اپنے ماضی کے سہارے زندہ نہیں ہیں۔سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں بسنے والے کچھ متعصبذہنوں کو مسلمانوں کے شاندار اور جاندار ماضی کا خوف ضرور پریشان کرتا ہے۔ وہ  اکثریہ ڈراؤنا خواب دیکھتے ہیں کہ مسلمان اس ملک میں اقتدار میں آجائیں گے۔ یہ خام خیالی ہے اور اسی کی بنیاد پر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔انھیں سراٹھاکر چلنے کی بجائے سرجھکاکر چلنے کے مشورے دئیے جارہے ہیں۔