Jadid Khabar

ہلدوانی کی غفوربستی کا المیہ

Thumb

سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگادی ہے جس میں ہلدوانی شہر کی غفور بستی کے چارہزار مکانوں کوبزور طاقت منہدم کرنے کا حکم سنایا گیا تھا۔ متاثرہ خواتین کی آہوں اور دعاؤں کے درمیان آئے اس عدالتی فیصلے سے ان پچاس ہزار مکینوں کو راحت ملی ہے، جو کئی روز سے منجمد کردینے والی سردی کے درمیان سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے۔ ہلدوانی انتظامیہ کی طرف سے لگاتار یہ اعلان ہورہا تھا کہ غفور بستی کے مکین ایک ہفتہ کے اندر اپنے مکان خالی کردیں تاکہ یہاں عدالتی حکم سے بلڈوزر چلایا جاسکے۔ انتظامیہ نے یہ اعلان کرنے سے پہلے نہ تو یہاں رہنے والوں کی بازآبادکاری کا کوئی منصوبہ بنایا اور نہ ہی ان کی چیخ وپکارپر دھیان دیا۔حالانکہ سیکڑوں پردہ نشین احتجاجی خواتین کی دعائیں عرش سے ٹکرارہی تھیں۔ عورتوں اور بچوں کی چیخیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں اور یہاں شاہین باغ جیسے مناظرتھے۔لیکن انتظامیہ کی دھمکیاں لاؤڈاسپیکروں کے ذریعہ فضا میں بدستور گونجتی رہیں اور عجیب ارتعاش پیدا ہوتارہا۔ 
آخرکارانصاف کے لیے ملک کی سب سے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جہاں گزشتہ جمعرات کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔سماعت کی اگلی تاریخ 7فروری طے ہوئی اور تبھی یہ معلوم ہوسکے گا کہ اتراکھنڈ سرکار غفوربستی کے مکینوں کی بازآبادکاری کا کیامنصوبہ پیش کرتی ہے۔اس دوران قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے ہلدوانی میں احتجاج کے دوران بچوں کو شریک کرنے پر یہ کہتے ہوئے اعتراض درج کرایا ہے کہ سخت سردی میں احتجاج کے مقام پرانھیں کیوں لایا گیا، لیکن کمیشن اس المیہ پر خاموش ہے کہ اس شدید سردی کے موسم میں اگر ان بچوں کے آشیانے اجاڑ دئیے جاتے  تو وہ کہاں جاکر اپنا سرچھپاتے؟
ہلدوانی معاملہ پرسپریم کورٹ میں عرضی گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے کہاتھا کہ غفوربستی میں تجاوزات ہٹانے سے تقریباً پچاس ہزار لوگ متاثر ہوں گے اور یہ کارروائیعوامی مقامات ایکٹ کے تحت غیرقانونی ہے جبکہ اتراکھنڈ سرکار کا کہنا تھا کہ غفور بستی کے مکینوں نے ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس کول نے کہا کہ”اس معاملے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ ہم سات دن کے اندر تجاوزات ہٹانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے سے پہلے ان کی بازآبادکاری کا کام کرایا جانا چاہئے۔کچھ لوگوں کے پاس 1947کے وقت کے زمین کے کاغذات ہیں۔“
 ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب آباد غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان یہاں دادا اورپر دادا کے زمانے سے رہتا چلا آیا ہے۔دوکلومیٹر کے علاقہ میں پھیلی ہوئی ان آبادیوں میں 3 سرکاری اسکول، 11منظورشدہ اسکول، 10 مسجدیں، 12مدرسے ایک سرکاری اسپتال اور ایک مندر واقع ہے۔ یہاں کی 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر یہ آبادی غیرقانونی تھی تو یہاں سرکاری اسکول کیسے وجود میں آئے۔ یہاں کا گورنمنٹ گرلز انٹر کالج 1952 میں جونئر ہائی اسکول کے طورپر قایم ہوا تھا اور یہاں اس وقت ایک ہزار طالبات زیرتعلیم ہیں۔ انتظامیہ نے ان طالبات کے مستقبل کی بھی کوئی فکر نہیں کی اور اسکول پر بھی بلڈوزرچلانے کا حکم دے دیا۔ اسی طرح اندرا نگر کے گورنمنٹ انٹر کالج کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جہاں 2000 طلباء زیرتعلیم ہیں۔
درحقیقت ہلدوانی انتظامیہ نے غفور بستی اور اس سے ملحق آبادی کو آناًفاناً منہدم کرنے کا فیصلہ اس لیے لیا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں آج کل بلڈوزر کا ہی راج ہے۔ ان بلڈوزر وں کی تکنیک کچھ اس انداز کی ہے کہ یہ ایک مخصوص فرقہ کی آبادیوں کو دیکھ کر اپنا آپا کھوبیٹھتیہیں۔اس اثناء میں مدھیہ پردیش سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں دارالحکومت بھوپال کے شمالی حلقے کی عارف نگر نواب کالونی میں ریلوے لائن کے قریب رہنے والے 25ہزار مسلمانوں کو محکمہ ریلوے نے بغیر کسی نوٹس کے منہدم کردیا ہے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پچھلے بیس پچیس برسوں سے مقیم تھے، لیکن اس سے قبل ریلوے کی جانب سے انھیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔قبل ازیں مدھیہ پردیش سے ہی یہ خبر آئی تھی کہ وہاں 2028کے کنبھ میلے کے پیش نظر اجین کی گل مہر کالونی کے مسلمانوں کو فوری طور پر اپنے مکانات خالی کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل احتشام ہاشمی نے حالات کا پتہ لگانے کے لیے اجین کا دورہ کرنے کے بعدوہاں کی مسلم کالونی کے باشندوں کی زمینوں کے دستاویزات دیکھے ہیں۔ مسلمان یہاں تقریباً 80سال سے آباد ہیں، اس کے باوجود انتظامیہ انھیں ہراساں کررہی ہے اور ان سے مکانات خالی کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ہاشمی کا کہنا ہے کہ اجین کو مسلم فری زون بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ عذر اختیار کیا جارہا ہے کہ مہاکنبھ کے لیے مسلم کالونی کی جگہ پر پارکنگ بنائے جائے گی۔حالانکہ اس کے قریب ہی پارکنگ کے لیے کافی خالی جگہ موجود ہے۔
گزشتہ جمعرات کو جب سپریم کورٹ نے ہلدوانی معاملے میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائی تو غفور بستی میں جشن کا سماں تھا۔ جن پچاس ہزار باشندوں کے سروں پر بلڈوزر کی تلوار لٹک رہی تھی انھوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ان میں سے بیشتر لوگ پچھلے ایک ہفتہ سے سراپا احتجاج تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کڑکڑاتی ہوئی سردی میں وہ اپنے بچوں کو لے کر کہاں جائیں گے۔ ان کے زندگی بھر کے سازوسامان اور آشیانے کا کیا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے درست ہی کہا ہے کہ ”پچاس ہزار لوگوں کو سات دن کے نوٹس پر بے گھر نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی بازآبادکاری کے لیے کچھ کیا جانا چاہئے۔“المیہ یہ ہے کہ ان دنوں ملک میں ایسا ماحول بن گیا ہے کہ جہاں کہیں انتظامیہ اور پولیس کے سامنے مسلمانوں سے متعلق کوئی معاملہ آتا ہے تو وہاں سب سے پہلے انسانی پہلو کو نظرانداز کردیا جاتا۔ظاہر ہے یہ جارحیت اس فسطائی پروپیگنڈے کی پیدا وار ہے جس میں مسلمانوں کو ’حرف مکرر‘ قرار دے دیا گیا۔ ان کا وجود اس دھرتی پر بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور ان کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اس کی بوباس ہلدوانی کی غفور بستی سے متعلق اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ 
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت سپریم کورٹ سے ہلدوانی معاملے میں حکم امتناعی جاری ہونے کا کریڈٹ لینے کی دوڑ میں شامل ہیں وہ ایک ماہ بعدجب اس معاملے کی دوبارہ سماعت ہوگی تو وہ غفوربستی کے مکینوں کے درد وکرب کو کم کرنے یا اس کا مستقل ازالہ کرنے کے لیے کیا عملی اقدامات کریں گے۔ عام طورپر قائدین اور مسلم نمائندوں کا رویہ فائر بریگیڈ جیسا ہوتا ہے۔وہ کسی مسئلہ کے حل کا کریڈٹ لینے کے لیے تو فوراً سامنے آجاتے ہیں، لیکن اس مسئلہ سے متاثرہ لوگوں کی دادرسی اور اس مسئلہ کے مستقل حل کی سبیل نہیں کرتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غفوربستی کے مکینوں کا کیس مضبوط انداز میں لڑا جائے۔ان کے پاس اپنادعویٰ ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت موجودہیں۔ ایک اہم شکایت یہ ہے کہ متنازعہ اراضی کا علاقہ محض29ایکڑکا ہے جبکہ تجاوزات ہٹانے کی کارروائی 78ایکڑ میں کی جارہی ہے۔ قابل غوربات یہ ہے کہ جب سے ریلوے کی نجی کاری کا عمل شروع ہوا ہے تب سے وہ اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنے کی کوششیں کررہا ہے تاکہ مہنگے دام مل سکیں۔ کہیں غفور بستی کا تنازعہ اسی کیپیداوارتو نہیں ہے۔
masoom.moradabadi@gmail.com