Jadid Khabar

کانگریس کی قبر کون کھود رہا ہے؟

Thumb



کانگریس میں قیادت کا بحران ایک ایسے وقت پیدا ہوا ہے، جب ملک کو ایک مضبوط اورمتحرک اپوزیشن کی سخت ضرورت ہے۔ملک کے عوام یک رخی سیاست سے عاجزآچکے ہیں اور وہ سیاسی محاذ پر ایک نئی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ حالانکہ ابھی الیکشن بہت دور ہے ، لیکن ملک کو دلدل سے نکالنے اور حکمراں طبقے کی من مانیوں پر لگام کسنے کے لئے مضبوط اپوزیشن وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔حکمراں بی جے پی کاخواب یہی ہے کہ وہ اپوزیشن کا خاتمہ کرکے بلاشرکت غیرے اس ملک کے سیاہ سفید کی مالک بن جائے۔لیکن جمہوریت کی بقاءکے لئے چونکہ اپوزیشن ایک لازمی عنصرہے ، اس لئے ہر محب وطن ہندوستانی کی یہی خواہش ہے کہ ایک بے مہار حکومت کو جمہوریت مخالف سرگرمیوں سے جتنی جلدی روک لیاجائے، اتنا ہی ملک کے حق میں بہترہوگا۔
بلا شبہ کانگریس ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس نے جنگ آزادی کی قیادت کی بلکہ آزاد ہندوستان کی تعمیر وتشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس کے ہاتھو ں میں تادیراقتدار کی باگ ڈور رہنے کی وجہ سے کانگریسی لیڈران عوام سے دور ہوتے چلے گئے اور ان کے اندر انانیت پیدا ہوگئی۔انھوں نے اپنے دروازے صرف ان لوگوں کے لئے کھلے رکھے جو چاپلوسی کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ کانگریس نے سیکولرازم کے اس سنہری اصول سے بھی قدم قدم پر سمجھوتے کئے جس نے اسے ایک مقبول عام پارٹی بنایا تھا۔اپنے اصولوں سے سمجھوتوں کی وجہ سے ہی آج کانگریس اپنے وجود کی لڑائی میں پھنس گئی ہے اور اس کے اندر قیادت کا مسئلہ ایک سنگین شکل اختیار کرگیا ہے۔
قیادت کا تازہ بحران اس خط سے شروع ہوا ہے جو پارٹی کے دودرجن کے قریب سینئر لیڈروں نے عبوری صدر سونیا گاندھی کومخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کو نئی زندگی دینے کے لئے ایک ایسی متحرک اور موثر قیادت کی ضرورت ہے، جو کل وقتی ہو اور میدان میں سرگرم بھی نظر آئے ۔ خط میںورکنگ کمیٹی کے چناو¿ کرانے اور صوبائی قیادت کو زیادہ آزادی دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ پارٹی اپناایجنڈا طے کرکے بی جے پی کو گھیرنے کی نئی حکمت عملی وضع کرے۔بظاہر اس خط میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کا بتنگڑ بنایا جاتا ، لیکن اس خط کے میڈیا میں لیک ہونے کے بعد پارٹی کی اندرونی چپقلش منظرعام پر آگئی ہے۔ خود پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے خط لکھنے والوں پر بی جے پی سے سازباز کرنے کاسنگین الزام لگایا۔ اس خط کی منشا کے بارے میں ایک سینئر کانگریسی لیڈر نے کہا کہ بطور صدر راہل گاندھی کی واپسی کے مطالبے کی ہوا نکالنے کے لئے ہی یہ خط لکھا گیا تھا۔ انتخابات میں شکست کی ذمہ داری کا مطالبہ بھی اسی پس منظر میں ہے۔حالانکہ راہل اور پرینکا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پارٹی کا صدر گاندھی خاندان سے باہر کا بننا چاہئے۔
اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعدکانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں جو کچھ ہوا اس نے کانگریس کے اندر جاری خانہ جنگی کو پوری طرح بے نقاب کردیاہے۔سات گھنٹے چلی میٹنگ میں سونیا گاندھی نے بھی عبوری صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی۔ خط لکھے جانے کے وقت پرسوال اٹھاتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ یہ خط بی جے پی سے ملی بھگت کرکے لکھا گیا ہے۔ راہل نے کہا کہ جب ماں اسپتال میں تھی، تبھی خط کیوں لکھا گیا۔ جب راجستھان میں سرکار بحران میں تھی تو اس سرگرمی کی ضرورت کیا تھی۔ انھوں نے کہاکہ جو باتیں خط میں اٹھائی گئی ہیں ، اس کی صحیح جگہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ ہے میڈیا نہےں۔ اس معاملے میں پرینکا گاندھی نے بھی راہل سے اتفاق کیا اور خط لکھنے والوں کو بالواسط طور پر دوہرے کردار کاحامل بتایا۔ یہاں تک کہ کماری شیلجہ نے خط لکھنے والوں کو بی جے پی کا ایجنٹ تک کہہ ڈالا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کانگریس کے اتنے سینئر لیڈروں پر بی جے پی ایجنٹ ہونے کا سنگین الزام عائد کیا گیا۔خط پر دستخط کرنے والوں میںغلام نبی آزاد، آنند شرما،کپل سبل، منیش تیواری،ششی تھرور ، مکل واسنک اور ویرپا موئیلی جیسے قدآور لیڈران شامل تھے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں کانگریس کو دی ہیں۔ ان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو بی جے پی سے سازباز کرسکتا ہو۔ظاہر ہے اس کا ردعمل ہونا تھا ۔راہل گاندھی کے بیان پر سب سے تیکھا ردعمل غلام نبی آزاد نے ظاہر کیا ۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ان پر بی جے پی سے سازباز کا الزام ثابت ہوجائے تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے۔کپل سبل نے بھی کہا کہ انھوں نے گزشتہ تیس سال کی سیاسی زندگی میں کبھی بی جے پی کے حق میں ایک لفظ نہیں کہا۔ بعد کو جب راہل کے بیان پر شدید ردعمل ہونے لگا تو پارٹی کی طرف سے نقصان کو کم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں اور سونیا و راہل نے غلام نبی آزاد سے فون پر بات کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔
بظاہر اس خط سے اٹھے سیاسی طوفان کو قابو میں کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ تاثر دیاجارہا ہے کہ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگلے چھ ماہ کے بعد جب سونیا گاندھی پارٹی صدارت کے عبوری دور سے مستعفی ہوجائیں گی تو پھر پارٹی کی باگ ڈور کون سنبھالے گا؟ پارٹی کا بڑا طبقہ ایک بار پھر راہل گاندھی کو اس عہدے پر دیکھنا چاہتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ نہرو گاندھی خاندان سے باہر پارٹی کی قیادت جانے کے بعد کانگریس متحد نہیں رہ پائے گی اور اس میں کئی گروپ بن جائیں گے۔بی جے پی بھی یہی چاہتی ہے کہ کانگریس میں قیادت کے سوال پر خلفشار برقرار رہے تاکہ اسے کانگریس کا تیاپانچہ کرنے میں آسانی ہو۔ بی جے پی نے پہلے ہی ’ کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ اچھال رکھا ہے اور وہ 135سال پرانی پارٹی کی قبر کھودنے میںمصروف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کانگریس ہی اس وقت ملک کی واحد پارٹی ہے جس کا دائرہ ملک گیر سطح پر پھیلا ہوا ہے اور ملک کے ہر صوبے میں اس کی اکائی موجود ہے جبکہ بی جے پی اپنی تمام کوششوں کے باوجود اس مقام کو نہیں پہنچ پائی ہے۔کانگریس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ملک کی بعض اہم ریاستوں میں اس کا تنظیمی ڈھانچہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور وہ حاشیہ پر پہنچ گئی ہے۔ ان صوبوں میں اترپردیش اور بہارجیسی ریاستیں ہیں ‘ جہاں لوک سبھا کی ایک چوتھائی نشستیں ہیں۔شمالی ہند میں پارٹی کی یہ حالت نرم ہندتوا کی پالیسی اپنانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔کانگریس نے ایودھیا تنازعہ پر جو دوہرا کردار ادا کیا، اس کی وجہ سے مسلمان اس سے بری طرح بدظن ہوگئے اور یہاں کانگریس کا روایتی ووٹ بینک دوسری پارٹیوں میں منتقل ہوگیا ہے۔ یوپی جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست میں گزشتہ چناو¿ میںراہل گاندھی خود اپنی امیٹھی سیٹ بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ کانگریس امیٹھی کی سیٹ ہار گئی۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کانگریس میں قیادت کے سوال پر جو گھمسان شروع ہوا ہے ، اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا واقعی پارٹی کا نیا صدر نہرو گاندھی خاندان سے باہر سے چنا جائے گا۔ اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ اس خاندان کے باہر سے پارٹی کاصدر چنا جانا فی الحال ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کاخطرہ پیدا ہوجائے گا۔درحقیقت نہرو ۔گاندھی خاندان جہاں ایک طرف پارٹی کی کمزوری ہے تو وہیں اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔پارٹی میں کئی اہل لیڈران موجود ہیں ، جو قیادت کے دعویدار ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس خاندان کے باہر کسی دوسرے لیڈر کو قیادت ملتے ہی گروپ بندی کا ایسا بازار گرم ہوجائے گا کہ پارٹی کو انتشار سے بچانا مشکل ہوگا۔
 کانگریس میں خاندانی راج پر سب سے بڑا اعتراض بی جے پی کو ہے اور یہ اعتراض اس لئے نہیں ہے کہ وہ اس پارٹی کی نئی زندگی کی خواہاں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ اس سوال پر پارٹی میں انتشار پھیلانا چاہتی ہے۔ ایک ایسی پارٹی ، کانگریس پرخاندانی تسلط کاالزام لگاتی ہے جس میں جمہوریت کا سب سے زیادہ فقدان ہے۔ سبھی جانتے ہےں کہ آج اس ملک کی کمان فردواحد کے ہاتھوں میں ہے۔ وہی ملک کے سیاہ سفید کا مالک ہے اور اس کی مرضی کے بغیر حکومت اور پارٹی میں پتہ بھی نہیں ہلتا۔ ایسے میں جب بی جے پی کانگریس میں خاندا نی راج کی بات کرتی ہے تو وہ اس کڑوی حقیقت کو قطعی نظر اندازکردیتی ہے کہ کانگریس میں تو ایک خاندان کا راج ہے جب کہ بی جے پی میں تو فردواحد کے علاوہ کسی کا نام ہی نظرنہیں آتا ۔کسی پارٹی کی قیادت کس شخص کے ہاتھ میں ہوگی یہ پوری طرح اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ قیادت کی تبدیلی سے زیادہ کانگریس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا کیڈر مضبوط کرے اور تنظیمی سطح پر پارٹی کو مستحکم کیا جائے۔ عوام کے نزدیک جانا اور ان کے دکھ درد کو سمجھنا کانگریس کے لئے بے حد ضروری ہے۔ لاک ڈاو¿ن کے دوران راہل گاندھی نے دہلی میں تباہ حال مزدوروں سے ملاقات کرکے اور ان کا غم بانٹ کر ایک اچھا کام کیا تھا۔ بی جے پی راہل کے اس قدم سے بلبلا اٹھی تھی۔اسی طرح پرینکا گاندھی نے لاک ڈاو¿ن کے دوران مزدروں کی نقل وحمل کے لئے یو پی سرحد پر سینکڑوں بسیں کھڑی کرکے بی جے پی کو لاجواب کردیا تھا۔آج فرد واحد کی حکومت میں مسائل سے کراہتے ہوئے عوام کا دکھ درد بانٹنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ سیکولرازم کے بھولے ہوئے سبق کو یاد کرنا بھی کانگریس کے لئے بے حد ضروری ہے ، کیونکہ سیکولرازم میں ہی ہندوستان کی نجات پوشیدہ ہے، جس سے انحراف نے کانگریس کو آج یہ دن دکھائے ہیں۔