Jadid Khabar

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سِوا

Thumb

دہلی کی حالیہ نسل کشی کے بعد مہذب دنیا کو امید تھی کہ مودی سرکار ان لوگوں کو عبرت ناک سزائیں دے گی جنھوں نے انسانی بستیوں کو جہنم میں تبدیل کیا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر سب حیران ہیں کہ جمہوریت کے چاروں ستون بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ان لوگوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں ، جنھوں نے انسانیت کو شرمسار کیا ہے اور غریب و لاچار لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ شمال مشرقی دہلی کی تباہی کی داستانیں اتنی دردناک ہیں کہ انھیں بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اس قتل وغارت گری نے انسانیت پر بہت سے لوگوں کا اعتماد ڈگمگادیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ترقی کی اتنی منزلیں طے کرنے کے باوجود ہمارے سماج میں ایسے وحشی درندے موجود ہیں جو آنِ واحد میں انسانیت کا جنازہ نکال سکتے ہیںاور اپنی وحشت وبربریت سے ہندوستان کو پوری دنیا میں بدنام کرسکتے ہیں ۔

 یہ حقیقت ہے کہ شمال مشرقی دہلی کی تباہی وبربادی کی گونج پوری دنیا میںسنائی دی ہے اور کئی ملکوںنے سخت الفاظ میںاس قتل عام کی مذمت کی ہے۔برطانیہ، ترکی ، انڈونیشیا، ملیشیا اور ایران جیسے ملکوں نے اس ظلم وبربریت کی سخت مذمت کی ہے۔ ہندوستان نے اس پر سخت اعتراض درج کراتے ہوئے اسے داخلی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہماری حکومت کب تک کھلی مسلم دشمنی کو ’اندرونی معاملہ ‘ قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہے گی۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مودی سرکار نے عددی طاقت کے گھمنڈ میں شہریت ترمیمی قانون میں ایک ایسی فرقہ وارانہ ترمیم کی ہے جو یہاں کے مسلمانوں کو دویم درجے کاشہری بناتی ہے اور جو دنیا میں رائج تمام شہری قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔لیکن اس کے باوجود حکومت کی پوری مشنری اس جھوٹ کو عام کرنے میں مصروف ہے کہ اس قانون سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جو مسلمان اس ظالمانہ قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں انھیں بری طرح کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دہلی کی حالیہ قتل وغارت گری اسی جابرانہ پالیسی کا نتیجہ ہے جس میں منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن نے سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کی سماعت کے دوران مداخلت کی اجازت طلب کی ہے۔اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق شیل جیریا نے سپریم کورٹ میں دلیل دی ہے کہ اس قانون پر سماعت کے دوران انسانی حقوق کے عالمی قوانیں ، معیار اور ضابطوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔
 راجدھانی دہلی میں جوکچھ ہواہے‘ اس کا مشاہدہ پوری دنیا نے کیا ہے۔ عالمی میڈیا نے بڑی جرأت مندی کے ساتھ اس کی تصویر کشی کی ہے، جبکہ ہندوستانی میڈیا کے غالب حصہ نے اس قتل وغارت گری پر لیپا پوتی کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ فساد بھڑکانے میں کلیدی رول اداکرنے  والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔اس کی ایک مثال بی جے پی کے مقامی لیڈر کپل مشرا ہیں جنھیں اس فساد کا کلیدی ملزم قرار دیا جارہا ہے لیکن حکومت کی پوری مشنری انھیں تحفظ فراہم کررہی ہے۔ وزارت داخلہ کے حکم پر کپل مشرا کو وائی زمرے کی سیکورٹی فراہم کردی گئی ہے جبکہ اپنی بے گناہی کا بار بار اعلان کرنے والے اور فساد سے متاثرہ میونسپل کونسلر طاہر حسین کو گرفتار کرلیا گیاہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پولیس نے اب تک جن1820 لوگوں کو فساد بھڑکانے کے الزام میں گرفتا رکیا ہے ، ان میں 99 فیصد وہی مظلومین ہیں جن کا اس فساد میں سب کچھ جل کرراکھ ہوگیا ہے۔ فساد کے دوران انتہائی جانب دارانہ کردار ادا کرنے والی دہلی پولیس سنگین الزامات کی زد میں ہے۔خود قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے تسلیم کیا ہے کہ قانون نافذ کرنے میں پولیس کی ناکامی دراصل جمہوریت کی ناکامی ہے ۔بی بی سی نے ایک گراؤنڈ رپورٹ میں دہلی پولیس کے اس کردار کوپوری طرح بے نقاب کردیا ہے جو اس نے فسادیوں کے معاون کے طور پر ادا کیا ہے۔دہلی میں فساد کی زمین تیار کرنے اور انتہائی اشتعال انگیز بیان دینے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کے لئے داخل کی گئی عر ضی پر ہائی کورٹ نے سماعت مزید ایک ہفتے کے لئے ٹال دی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے اس پر فوری سماعت کے لئے یہ عرضی ہائی کورٹ کو بھیجی تھی۔ 
اس فساد کے بعد جمہوریت کے چاروں ستون لرزہ بر اندام ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں اب جمہوریت آخری سانسیں گن رہی ہے۔ جمہوریت کے ان ستونوں میں پہلا نمبر قانون سازاداروں کاہے۔ دوسرا نمبر عدلیہ کا ہے ۔ تیسرا عاملہ کا اور چوتھا نمبر ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا کاہے ۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس وقت جمہوریت کے چاروں ستون اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوششیں کررہے ہیں اوران میں سے کوئی بھی حکومت کی ناراضگی مول لینے کو تیار نہیں ہے۔ گذشتہ ہفتہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ممبران دہلی کے فساد پر بحث کرانے کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن اسپیکر نے اس مطالبہ پر غور نہیں کیا ۔ ان ممبران کو پارلیمنٹ کے رواں اجلاس کی بقیہ کارروائی سے معطل کردیا گیاجنھوں نے اپنے مطالبے پر زور دینے کے لئے پارلیمنٹ میں احتجاج کیا تھا۔ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ کے سینئر جج ایس مرلی دھر کا تبادلہ کردیا گیا تھا جنھوں نے دہلی پولیس کو بی جے پی کے ان لیڈروں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا جنھوں نے اشتعال انگیز بیانات دئیے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ جمعرات کو جب جسٹس مرلی دھر کو دہلی ہائی کورٹ میں الوداعیہ دیا گیا تو وہاں کا منظر ہی بدلا ہواتھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہائی کورٹ کی تاریخ میں ایسا بے نظیر الوداعیہ کبھی نہیں دیکھا۔ اپنی الوداعی تقریر میں جسٹس مرلی دھر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ زندگی میں کبھی انصاف سے منہ نہیں موڑنا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے بھی فوری توجہ کے موضوعات پر بھی ’ دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی اختیا ر کررکھی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شہریت ترمیمی قانون پر اس کا ناقابل فہم رویہ ہے۔ اس قانون کے خلاف اب تک لگ بھگ 150 عرضیاں داخل ہوچکی ہیں اور پورے ملک میں احتجاج ہورہے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس کی سماعت کی تاریخ مسلسل آگے بڑھا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے گذشتہ جمعرات کو ایک بار پھر اس قانون کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پرجلد سماعت سے انکار کردیاہے۔
اب آئیے ایک نظر عاملہ کے کردار پر ڈالتے ہیں جس میں پولیس کا کردار سب سے اہم ہے‘ کیونکہ وہی قانون نافذ کرنے والی سب سے طاقتور ایجنسی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون نافذ ہونے کے بعدملک گیر سطح پر احتجاج کی جولہر چلی ہے، پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر اس کو بری طرح کچلنے میںذرا بھی شرم محسوس نہیں کررہی ہے۔ جبکہ پرامن احتجاج ہر شہری کا دستوری حق ہے ۔بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں یہ کھیل پوری بے غیرتی کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔اترپردیش، کرناٹک اور دہلی میں ظلم اپنی انتہاؤں کو پہنچ گیا ہے۔ کرناٹک میں اسکولی بچوں تک پر وطن دشمنی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔یوپی میں کالے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پہلے گولیاں برسائی گئیں اور اب احتجاج میں شریک ہونے والوں کی تصویریں اشتہاری مجرموں کی طرح چوراہوں پر آویزاں کی جاری ہیں۔اسی طرح جمہوریت کا چوتھے ستون یعنی میڈیا کا بڑاحصہ بھی ظالموں کی صف میں کھڑا ہوانظر آرہا ہے اور اس نے بے شرمی اور بے غیرتی کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔ سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ جب جمہوریت کے چاروں ستون اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کریں گے تو پھر جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری کون نبھائے گا۔ملک کے جمہوری نظام پر مجبور اور لاچار لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوتا چلا جارہا ہے اور ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں؟اس صورتحال پر علی سردار جعفری کایہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے کہ
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سِوا
راستے بند ہیںسب کوچہ قاتل کے سِوا
ہم امید کرتے ہیں کہ جمہوریت کے یہ چاروں ستون اپنی انسانی‘ اخلاقی اور آئینی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کی طرف واپس آئیں گے کیونکہ ملک میں جمہوریت اور دستور کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے۔ان میں سب سے اہم اور کلیدی کردار سپریم کورٹ ادا کرسکتا ہے جو ملک کے آئین کا سب سے بڑا محافظ تصور کیا جاتا ہے ۔جب کھلے عام لوگوں کے دستوری حقوق پامال کئے جارہے ہوں اور جمہوریت خطرے میں ہو تو ملک کی سب سے بڑی عدالت کو انصاف اور انسانیت کے حق میں صف آرا ہوجانا چاہئے۔یہی وقت کا تقاضہ ہے۔