Jadid Khabar

ایودھیا میں سنگھ پریوار کی اشتعال انگیزی

Thumb

حالیہ اسمبلی انتخابات میں جیسے جیسے بی جے پی کی شکست کے امکانات بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے ایودھیا میں سادھو سنتوں کی بھیڑ بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ وہ سادھو سنت ہیں جن کا نہ تو دھرم سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی وہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایودھیا تنازع فیصل ہونے سے قبل ہی متنازع مقام پر زور زبردستی رام مندر بنانے کے لئے زبردست اچھل کود کی جارہی ہے اور ایودھیا میں قانون کی دھجیاں اڑانے کے لئے غیر قانونی بھیڑ اکٹھا کی جارہی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس بار ایودھیا میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کمان خود آر ایس ایس نے سنبھالی ہے اور اس نے اس کام کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ وشوہندوپریشد کے لیڈر اشوک سنگھل کے گزرجانے اور فائر برانڈ پروین توگڑیا کے پٹری سے اترجانے کے بعد اب سنگھ پریوار کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو ایودھیا کی دھار کو تیز کرنا جانتا ہو لہٰذا خود آر ایس ایس کے بڑے لیڈروں نے ایودھیا میں ڈیرا ڈال دیا ہے۔ ایسے دھمکی آمیز بیانات دیئے جارہے ہیں جن کی ضرب براہ راست قانون اور عدلیہ پر پڑتی ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی تک نہ تو عدلیہ نے ان غیر قانونی کوششوں کا نوٹس لیا ہے اور نہ ہی قانون نے اپنا کام کرنا شروع کیا ہے۔ ایودھیا کو آگ لگانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ سنگھ پریوار ہی نہیں شیوسینا بھی اپنی کمزور پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے ایودھیا کی پناہ میں پہنچ چکی ہے۔ شیوسینا سربراہ ادھوٹھاکرے کی ایودھیا یاترا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن شیوسینا کو یہاں اپنے قدم جمانے کے لئے سنگھ پریوار کے اُن لیڈروں سے مورچہ لینا پڑرہا ہے جو ایودھیا کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ 1992 میں بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ جب ایودھیا میں ایک ساتھ اتنے شرپسند جمع ہوگئے ہیں۔ جس قسم کی بولیاں بولی جارہی ہیں اور دھمکی آمیز زبان استعمال کی جارہی ہے، اس کے پیش نظر ایودھیا کے مسلمانوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ کہیں یہاں دوبارہ 1992 جیسے حالات پیدا نہ ہوجائیں۔

 سپریم کورٹ میں ایودھیا تنازع کی سماعت مؤخر ہونے کے بعد ہی آر ایس ایس نے دھمکی دی تھی کہ ایودھیا میں اب 1992جیسا آندولن شروع کیا جائے گا۔ ہندوؤں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ حکومت یا تو آرڈیننس لائے یا پھر پارلیمنٹ سے قانون بناکر رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کیاجائے۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہی ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت ایودھیا میں ایک لاکھ سے زیادہ سادھو سنتوں کو اکٹھا کرنے کی کال دی گئی۔ آر ایس ایس کے آلہ کار بابارام دیو کا کہنا ہے کہ اگر رام مندر نہیں بنا تو ملک میں بغاوت ہونے کا امکان ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کو سچا رام بھکت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’رام مندر کی تعمیر کا راستہ سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے ہموار ہوگا اور سرکار کو اس طرف پہل قدمی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ’’ لوگوں کے صبر کا باندھ ٹوٹ رہا ہے، وہ اب مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ جب حد سے زیادہ کسی مسئلے کو دبایا جاتا ہے اور کوئی حل نہیں نکلتا تو بغاوت کا امکان پیدا ہوگا۔‘‘ بابا رام دیو اور سنگھ پریوا رکے دیگر لیڈروں کے دھمکی آمیز بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار ہرحال میں یہی چاہتا ہے کہ 2019 کے چناؤ سے قبل ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوجائے تاکہ ملک کے بھولے بھالے عوام اس کے فریب میں آکر بی جے پی کو دوبارہ اقتدار سونپ دیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں مودی سرکار نے عوامی بہبود کا کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا ہے جس سے عوام کو راحت ملی ہویا انہیں اچھے دنوں کا احساس ہوا ہو۔ اس کے برعکس نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اقدامات نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ وزارت زراعت کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ نوٹ بندی کے دوران کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ملک میں جمہوری اداروں کے ساتھ جو کھلواڑ کیاجارہا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سی بی آئی جیسی ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ایک بڑے افسر نے سی بی آئی کے کاموں میں حکومت کی مداخلت کا الزام لگایا ہے اور ایک مرکزی وزیر پر رشوت خوری کا بھی الزام لگا ہے۔ رافیل طیاروں کی سودے بازی میں بدعنوانی کا الزام براہ راست وزیراعظم مودی پر ہے۔ بدعنوانی کے کئی معاملات میں مودی سرکار گردن تک ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔ بی جے پی صدر امت شاہ پر ایک اعلیٰ تحقیقاتی افسر نے سی بی آئی عدالت میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ سہراب الدین فرضی مڈبھیڑ میں امت شاہ بھی ایک اہم سازشی کے طورپر شریک تھے۔ اس سے بی جے پی کی خوب مٹی خراب ہورہی ہے۔ راہل گاندھی نے درست ہی کہا ہے کہ بی جے پی کو ایسے ہی صدر کی ضرورت ہے۔
دراصل ان تمام معاملات سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا شوربلند کیاجارہا ہے۔ صورت حال اتنی خراب ہے کہ بی جے پی لیڈران عوامی غم وغصے کا سامنا کرنے سے بچ رہے ہیں اور اسی لئے اب کمان خود آر ایس ایس نے سنبھال لی ہے۔ آر ایس ایس کی حالیہ سرگرمیوں کو دیکھ کر واضح ہوگیا ہے کہ اب تک اس کی طرف سے ایک سماجی اور فلاحی تنظیم ہونے کے جو دعوے کئے جارہے تھے، وہ سب کے سب فریب تھے۔ چونکہ آر ایس ایس نے اب پوری طرح سیاسی لباس پہن لیا ہے اور وہ کھل کر بی جے پی کو مصیبت سے نکالنے کے لئے میدان میں کود پڑی ہے۔ آر ایس ایس نے ایودھیا میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ جمع کرنے کے لئے اپنے تمام گھوڑے کھول دیئے ہیں۔ دھرم سبھا کے لئے آر ایس ایس کی سرگرمیاں بھیڑ اکٹھا کرنے سے لے کر سادھو سنتوں کے اجلاس تک ہر سطح پر نظر آتی ہیں۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ایودھیا کی اب تک کی تحریکوں میں وشوہندو پریشد پیش پیش رہا ہے اور آر ایس ایس نے اسے پس منظر میں رہ کر طاقت پہنچائی ہے۔ لیکن اس مرتبہ حالات قطعی مختلف ہیں۔ اس بار آر ایس ایس نہ صرف منظرعام پر ہے بلکہ اس نے انتظام وانصرام کی پوری ذمہ داری بھی سنبھال رکھی ہے۔ یہ بات اسی وقت واضح ہوگئی تھی جب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس سلسلے میں بیان دیا تھا اور اس کے بعد ایودھیا میں دھرم سبھا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ آر ایس ایس کے سینئر لیڈر بھیا جوشی نے کہا ہے کہ ’’مندر کی تعمیر ہندو سماج کا خواب ہے۔ اسے شرمندۂ تعبیر کر نا سنگھ پریوار کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے آر ایس ایس پرُعزم ہے۔ ‘‘
ایودھیا میں جیسے جیسے بھیڑ بڑھتی جارہی ہے، ویسے ویسے وہاں کے مسلمانوں میں خوف وہراس پھیل رہا ہے۔ 1992میں مسلمانوں کے خلاف جو تشدد ہوا تھا اس میں بیرونی لوگوں کا ہاتھ تھا اور اس بار بھی وہاں بڑی تعداد میں باہر کے لوگ اکٹھا ہوگئے ہیں۔ ایودھیا تنازع کے فریق اور ایودھیا کے پشتینی باشندے اقبال انصاری کا کہنا ہے کہ ’’پچھلے آندولن کے وقت بھی سرکار نے کہا تھا کہ پرندہ پَر نہیں مارسکتا لیکن اس کے باوجود یہاں ہلاکتیں ہوئیں اور پندرہ مسلمانوں کو قتل کردیاگیا۔ کئی مسجدیں شہید کردی گئیں اور مکانوں کو جلادیاگیا۔‘‘ افسوسناک بات یہ ہے کہ ضلع انتظامیہ نے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی مسلمانوں نے صدرجمہوریہ کو ایک میمورنڈم بھیج کر اپنے تحفظ کی فریاد کی ہے۔ ایودھیا میں سنگھ پریوار کی حالیہ سرگرمی درحقیقت ہندوؤں کو یہ یقین دلانے کے لئے ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ لیکن عرصۂ دراز سے سنگھ پریوار کی دروغ گوئی سے پریشان ہندوسماج کے لوگ اب اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں کہ ایودھیا کارڈ سنگھ پریوار کے لوگ اسی وقت استعمال کرتے ہیں جب انتخابی میدان میں بی جے پی کی حالت پتلی ہوتی ہے۔ اب ایک بار پھر مدھیہ پردیش ، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ جیسی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اپنی شکست کی آہٹ محسوس کرکے سنگھ پریوار نے ایک بار پھر ایودھیا کے موضوع کو گرم کردیا ہے اور وہ اس موضوع کو 2019 کے عام انتخابات تک گرم رکھنا چاہتی ہے۔ اس کام میں گودی میڈیا سنگھ پریوار کا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ ایودھیا تنازع کے تمام قانونی اور عدالتی پہلوؤں کو پس پشت ڈال کر سب کچھ عددی طاقت اور بھیڑ کے بل پر طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو دراصل ملک میں قانون کی بالادستی اور انصاف کی حکمرانی کے لئے انتہائی ہلاکت خیز ہے۔