آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے 1975میں ملک کے اندر ایمرجنسی نافذ کرکے ہنگامی حالات کا اعلان کردیا تھا۔ اس موقع پرتمام سیاسی مخالفین کو قید خانوں میں ڈال دیاگیا تھا۔ 21مہینوں تک جاری رہنے والا ایمرجنسی کا یہ دور خاصا پریشان کن اور تکلیف دہ تھا کیونکہ اس دوران سیاسی سرگرمیاں ٹھپ پڑگئی تھیں اور جمہوری عمل پوری طرح ختم ہوگیا تھا۔ یوں تو ملک میں ہرسال وہ لوگ ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کو یاد کرتے ہیں جو اس کا براہ راست شکار ہوئے تھے۔ لیکن اس بار 26جون کو ایمرجنسی کی دلخراش یادوں کو تازہ کرنے کا کام سرکاری سطح پر کیاگیا۔ مودی سرکار نے سرکاری خرچ پر ایمرجنسی کے خلاف اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے اور ٹی وی چینلوں پر خصوصی پروگرام پیش کئے گئے۔ ان پروگراموں کا بنیادی مقصد کانگریس پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا۔ کیونکہ آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی اسی پارٹی کی قدآور لیڈر تھیں۔ مودی سرکار نے ایمرجنسی کے 43برس بعد اس کی یادیں عوام کے ذہنوں میں تازہ کرنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی، اس کے تحت دودرجن سے زائد مرکزی وزیروں ، 12صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور پارلیمنٹ کے 200 سرکردہ ممبران کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزارممبران کو اس ڈیوٹی پر لگایاگیا تھا کہ وہ عوام کے ذہنوں میں ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کی یادوں کو تازہ کریں تاکہ لوگ کانگریس سے بدظن ہوں اور اسے جمہوریت مخالف پارٹی قرار دیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ حکمراں بی جے پی کی اس ہنگامی مہم کا عوام کے ذہنوں پر کیا اثر مرتب ہوا کیونکہ 43برسوں کے اس عرصے میں ملک کے اندر کئی نسلیں بڑھ کر جوان ہوچکی ہیں اور وہ اپنے مستقبل کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ آج کے نوجوانوںکے ذہنوں میں ایمرجنسی کے دنوں کی کوئی یاد تازہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کے ایمرجنسی کا دور اس اعتبار سے بڑا تاریک دور تھا کہ اس میں بنیادی جمہوری آزادی سلب کرلی گئی تھی اور لوگوں کے ذہنوں پر پہرے بٹھادیئے گئے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمرجنسی کے دوران سرکاری مشینری غیرمعمولی طورپر چست درست ہوگئی تھی۔ لوگ وقت سے پہلے دفتر پہنچ جاتے تھے اور ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ نقل وحمل کے ذرائع کی درستگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ جو ٹرینیں آج 24-24گھنٹے تاخیر سے چل رہی ہیں، وہ ایمرجنسی کے زمانے میں اپنے مقررہ وقت سے پہلے پلیٹ فارم پر پہنچ جایا کرتی تھیں۔ اس لئے اگر یہ کہاجائے کہ جہاں ایک طرف ایمرجنسی کے دور میں سیاسی لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیا تھا تو وہیں سرکاری مشینری کے کام کاج میں غیر معمولی سدھار پیدا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایمرجنسی کو کھٹی اور میٹھی دونوں ہی یادوں کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔
مودی سرکار نے ایمرجنسی کی یاد تازہ کرنے کے لئے جو پروگرام منعقد کئے تھے، ان میں سب سے بڑا پروگرام ممبئی میں کیاگیا جہاں خود وزیراعظم نریندرمودی موجود تھے۔انہوں نے ’’ایمرجنسی : جمہوریت پر حملہ‘‘ کے زیر عنوان پروگرام میں شرکت کی اور کہاکہ ’’کانگریس کی حکومت نے اقتدار کے لئے ملک کو قید خانے میں بدل دیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہاکہ ہم جمہوریت میں بیدار رہنے کے لئے اس دن کو یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس دن ایک خاندان کے لئے ملک کی عدلیہ کے وقار پر چوٹ کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ’’ کانگریس نے ایسا فرضی خوف پیدا کیا کہ بی جے پی آئے گی تو مسلمانوں کو مار دیاجائے گا۔‘‘
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی نے جس ایمرجنسی کی یاد میں ملک گیر سطح پر پروگرام منعقد کرائے اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کی سیاہ یادیں تازہ کیں، وہ ایک اعلانیہ ایمرجنسی تھی جس کا خمیازہ آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی کو انتخابات میں شرمناک شکست کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ لیکن آج وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں ملک کے اندر ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا ماحول قائم ہے۔ مودی راج میں سرکاری مشینری پر ایک عجیب وغریب قسم کا خوف طاری ہے اور سرکاری لوگ کسی کا جائز کام کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ عوام کی معاشی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ اگر غور سے دیکھاجائے تو وزیراعظم مودی کے دوراقتدار میں ملک کے اندر صرف اور صرف منافرت اور خوف میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کانگریس پر مسلمانوں کے دلوں میں آر ایس ایس کے حوالے سے جس فرضی خوف کاذکر کیا ہے، وہ فرضی قطعی نہیں تھا کیونکہ پچھلے چار سال کے عرصے میں یہ خوف ایک ڈراؤنی حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کو ملک گیر سطح پر جس وحشت اور درندگی کا نشانہ بنایاگیا ہے، اس کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جس طرح گئو کشی کے جھوٹے الزامات لگاکر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے ، وہ انتہائی وحشت ناک اور دردناک ہے۔حکومت کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ہجومی تشددمیں مسلمانوں کی ہلاکت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی عید کے چند روز بعد ہی اترپردیش کے ہاپوڑ ضلع میں مویشیوں کے ایک تاجر محمد قاسم کو گئو کشی کے جھوٹے الزام میں انتہائی بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاگیا اور پولیس کی موجودگی میں ان کی لاش زمین پر گھسیٹی گئی۔ ایک دیگر باریش مسلمان محمد سمیع کو جس طرح زدوکوب کیاگیا اور ان کی ڈاڑھی نوچی گئی، وہ بھی انتہائی شرمناک ہے۔ المیہ یہ ہے کہ محمد قاسم نے دم توڑتے وقت جب وہاں موجود لوگوں سے پانی مانگا تو انسان نما وحشی درندوں نے مرتے وقت ان کے منہ میں پانی بھی نہیں ڈالا۔
حالانکہ کانگریس کے دور حکومت میں بھی مسلمان فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں اور انہیں جان ومال کی بے مثال قربانیاں پیش کرنی پڑیں، لیکن آج مسلمانوں کے اندر جو خوف اور دہشت ہے، وہ آزادی کے بعد کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس کے باوجود جب وزیراعظم نریندرمودی یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے تعلق سے مسلمانوں میں جو خوف پیدا کیاگیا ہے وہ فرضی تھا تو ہمیں ان کے اس بیان پر ہنسی آتی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی جس پارٹی کے لیڈر ہیں خود اس میں بھی جمہوریت نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ ملک اور پارٹی کی پوری طاقت صرف دولوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔جہاں ایک طرف وزیراعظم نے پوری کابینہ کو حاشیے پر بٹھاکر ساری طاقت اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے وہیں بی جے پی صدر امت شاہ نے پارٹی کو پوری طرح اپنی مٹھی میں سمیٹ رکھا ہے۔ بی جے پی میں کس حد تک گھٹن کا ماحول ہے اس کا اندازہ حال ہی میں راجستھان کے بی جے پی ممبر اسمبلی گھنشیام تیواری کے استعفیٰ سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے پارٹی صدر امت شاہ کو لکھے ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ’’ پچھلے چار سال سے پورے ملک کے ساتھ راجستھان میں بھی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔ ‘‘
وزیراعظم نریندرمودی کی تقریر سے ایک روز قبل ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی کا موازنہ جرمنی کے تاناشاہ ایڈولف ہٹلر سے کیاتھا۔ اس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کانگریس نے وزیراعظم نریندرمودی کا موازنہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے کیاہے۔ پارٹی ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہاکہ مودی جی نے ملک کو 43سال پہلے کی ایمرجنسی کا سبق پڑھایا ہے۔ کیا کانگریس پر بھڑاس نکالنے سے مودی جی کے جھوٹ پر پردہ پڑسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اورنگ زیب نے تو صرف اپنے والد کو قید کیا تھا لیکن آج کے اورنگ زیب نے تو پارٹی سمیت پوری جمہوریت کو یرغمال بنالیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ملک میں گزشتہ 49مہینوں سے غیر اعلانیہ ایمرجنسی لگی ہوئی ہے۔ آج سوال پوچھنے والا ہر شخص غدار وطن قرار دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مودی جی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تاریخ سے انتقام لے رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے کہ وہ خود تاریخ بننے والے ہیں۔