Jadid Khabar

بی جے پی کی مشکلوں میں اضافہ

Thumb

2014 کے عام انتخابات میں جس سوشل انجینئرنگ کے سہارے بھارتیہ جنتاپارٹی نے لوک سبھا کی 282 سیٹیں جیتی تھیں‘ وہ اب پوری طرح فیل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔مسلمانوں کو سیاسی طورپر اچھوت بنانے کی حکمت عملی کے تحت بی جے پی نے دلتوں اور پچھڑوں کو اکٹھا کرکے لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرلی تھی اور کسی ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہ دے کر یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے بغیر بھی جیت حاصل کرسکتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے 2019 کے انتخابات قریب آرہے ہیں‘ ویسے ویسے بی جے پی کی مشکلیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ کیونکہ عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ جھوٹے ثابت ہوئے ہیں ۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں جن دلت ووٹوں نے پہلے لوک سبھا اور پھر ودھان سبھا میں بی جے پی کو زبردست سیاسی طاقت پہنچائی تھی اور دلت ووٹوں کی واحد دعویدار مایاوتی کوخالی ہاتھ لوٹادیا تھا ‘وہی دلت ووٹ آج بی جے پی کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ خود بی جے پی میں موجود دلت ممبران پارلیمنٹ اپنی پارٹی کو آنکھیں دکھارہے ہیں۔ 

گزشتہ 2اپریل کو پورے ملک میں دلتوں کی طرف سے منائے گئے ’بھارت بند‘ کے دوران کم وبیش ڈیڑھ درجن لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ کروڑوں کی املاک جلائی گئی اور احتجاج کرنے والوں نے یہ ثابت کردکھایا کہ اگر ان کے مفادات سے کھلواڑ کی گئی تو وہ طوفان مچادیں گے۔ دلتوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ ایس سی /ایس ٹی کے لوگوں کو اعلیٰ ذاتوں کے ظلم وستم سے بچانے کے لئے بنائے گئے ایکٹ میں انہیں کوئی بھی ترمیم منظور نہیں ہے۔ اگر اس ایکٹ کو چھوا بھی گیا تو وہ سب کچھ تہس نہس کردیں گے۔ حکومت نے دلتوں کے غصے اور طیش کو بھانپ کر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی جو درخواست داخل کی تھی اسے عدالت نے نا منظور کرتے ہوئے کہاہے کہ ایس سی / ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم ناگزیر ہے کیونکہ اس کی آڑ لے کر بے قصور لوگوں کو پریشان کرنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔  واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کے تحت ملزم کی فوری گرفتاری اور ضمانت پر پابندی سے متعلق دفعات میں ترمیم کا عندیہ دیا تھا۔ فی زمانہ یہ ایکٹ دلتوں کو اعلیٰ ذات کے لوگوں کے مظالم سے محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ ضرور ہے لیکن اس کے غلط استعمال اور جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے واقعات بھی عام ہیں‘ جس پر روکنے لگانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ لیکن دلت سماج کے لوگ اس ایکٹ میں کسی بھی ترمیم کو خود پر ہونے والے مظالم میں اضافے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ دلتوں میں ایک دوسرا تاثر یہ ہے کہ حکمراں بی جے پی ایس سی /ایس ٹی ریزرویشن کے خاتمے کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ بہار اسمبلی چناؤ کے دوران ریزرویشن سے متعلق آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایک بیان نے بی جے پی کو خاصی پریشانی میں مبتلا کردیا تھا اور بی جے پی کو اس کا نقصان انتخابی میدان میں اٹھانا پڑا تھا۔ 
اگر آپ غور سے دیکھیں تو ملک میں دلتوں اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ مجموعی آبادی میں دلت 19فیصد ہیں اور مسلمان 18فیصد ۔ لیکن دونوں کی سیاسی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں جہاں مسلمانوں کے احتجاج اور مظاہروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں‘ وہیں دلتوں کی ایک کمزور آواز بھی حکومت پر بھاری پڑتی ہے۔ مثال کے طورپر مودی سرکار نے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا جو دروازہ کھولا ہے ‘وہ اسے مسلسل وسیع کرتی چلی جارہی ہے۔ یعنی طلاق ثلاثہ پر قانونی پابندی کے بعد اب تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے۔ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوششوں کے خلاف اور شریعت اسلامی کے حق میں مسلمان مسلسل صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں مسلم خواتین نے درجنوں شہروں میں شریعت میں مداخلت کے خلاف زور دار مظاہرے کئے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک مظاہرے یا احتجاج کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس کے برعکس ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کی عدالتی پہل کے خلاف دلتوں کے غم وغصے کو دیکھ کر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ نظرثانی کی درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ ذرا سوچئے کہ تقریباً یکساں سیاسی طاقت رکھنے والے ملک کے دوکمزور طبقوں کے ساتھ حکومت کے سلوک میں یہ فرق کیوں ہے؟ حکومت دلتوں کو مسلسل سمجھانے کی کوشش کررہی ہے کہ عدالتی پہل میں اس کی کوئی منشاء شامل نہیں ہے لیکن دلتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے اور وہ مسلسل مودی سرکار کی نیت پر سوال کھڑے کررہے ہیں۔
 بی جے پی کے دلت ممبران پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ 2اپریل ’بھارت بند‘ کے بعد ملک میں دلتوں پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اکثر مقامات پر انہیں زدوکوب کیاگیا ہے اور جابجا باباصاحب امبیڈکر کی مورتیاں توڑی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اترپردیش کے بدایوں ضلع میں بابا صاحب کی مورتی کو بھگوا لباس پہنا کر یہ تاثر دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دلتوں کو ہندوتو کا لبادہ اوڑھنا ہوگا۔ 2اپریل کے دلتوں کے ’بھارت بند‘ کے جواب میں 10اپریل کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ’بھارت بند‘ منایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت بند کی یہ کال کسی تنظیم یا کسی سیاسی پارٹی نے نہیں دی تھی بلکہ سوشل میڈیا کی طرف سے چلائی گئی مہم کے تحت ’بھارت بند‘ کے اعلان میں جزوی کامیابی حاصل ہوئی ۔اس بند کا کوئی خاص اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔
بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین اس لئے کھسک رہی ہے کہ اس نے 2014کے عام چنائو میںمسلمانوں کو حاشیے پر پہنچا کر اور دلتوںو پچھڑوں کو اچھے دن کے خواب دکھا کر جو بازی جیتی تھی وہ 2019 میں پوری طرح الٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہرچند کہ دلتوں اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کا ٹکراؤ روکنے کے لئے بی جے پی نے اپنے آزمودہ فارمولے کو استعمال کیا ہے اور شمالی ہند کے کئی صوبوں میں منصوبہ بند طریقے سے فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے گئے ہیں۔ ان میں کم وبیش نصف درجن لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔ بہار اور مغربی بنگال میں فساد بھڑکانے کے الزام میں بی جے پی کے کارکنوں کو گرفتار کیاگیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہندو مسلم کی تفریق پیدا کرکے ذات پات کے جھگڑوں کو روکنے کا فارمولہ اب کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں مغربی بنگال کے آسنسول ضلع میں نورانی مسجد کے امام مولانا امداداللہ رشیدی نے اپنے جواں سال بیٹے کی فسادیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد صبرو تحمل کی جو مثال پیش کی اور مشتعل مسلمانوں کو قابو میں کرکے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کی ہرجگہ تعریف کی جارہی ہے۔ اس واقعہ نے ہندو مسلم اتحاد کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔ اس طرح فرقہ وارانہ فساد بھڑکاکر ذات پات کی تفریق کو ختم کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی‘ وہ پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اب ایسے میں بی جے پی کے پاس رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ کو اچھالنے کے سوا کوئی نعرہ نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی خود سنگھ پریوار کے لوگوں میں ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ 80کی دہائی میں سنگھ پریوار نے رام جنم بھومی مکتی آندولن کا آغاز آنجہانی وزیراعظم وی پی سنگھ کی طرف سے منڈل کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کے خلاف ایک ہتھیار کے طورپر کیا تھا۔ سنگھ پریوار کو محسوس ہوا کہ پچھڑو ں کو 27فیصد ریزرویشن کا فیصلہ ہندوؤں کو ذات برادری میں تقسیم کرنے کی کوشش ہے تو اس کا توڑ کرنے کے لئے ایودھیا میں رام مندر کے موضوع کو ہوا دی گئی اور اس طرح معاشرے میں فرقہ وارانہ دراڑ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔ اب ایک بار پھر دلتوں اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کے لئے ایک بار پھر رام مندر کی تعمیر کے لئے پارلیمنٹ سے قانون بنانے جیسے ہتھکنڈے اختیار کئے جاسکتے ہیں اور ایک بار پھر نفرت کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ ایسے میں وشوہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا خود میدان میں اتر آئے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی اور مودی پر تیکھا حملہ بولتے ہوئے کہاہے کہ بی جے پی نے ووٹ پانے کے لئے ہندوؤں اور بھگوان رام کو استعمال کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہندوؤں کو شبہ ہے کہ ترقی اور تحفظ کے موضوع پر ناکام ہورہی سرکار پھر چناؤ میں ہندو ووٹ پانے کے لئے رام مندر کی تحریک چلواکر ہندوؤں کو مرواسکتی ہے۔ توگڑیا نے کہاکہ اب ہندو سمجھ گئے ہیں کہ رام مندر کے نام پر ہندوؤں کو جگانا ، آندولن کرنا صرف ووٹوں کے لئے شاطرانہ چال تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب کبھی چناؤ آتے ہیں تو بی جے پی کو اچانک بھگوان رام یاد آتے ہیں۔