Jadid Khabar

’مسلم پرستی‘ کا الزام اور کانگریس

Thumb

کانگریس پارٹی نے مشہور وکیل اور پارٹی لیڈر کپل سبل کو حکم دیا ہے کہ وہ خود کو بابری مسجد کے مقدمے سے علیحدہ کرلیں۔ نیوز چینل سی این این نے پارٹی کے اندرونی ذرائع سے خبر دی ہے کہ کپل سبل سے کہاگیا ہے کہ اس مقدمے سے ہاتھ کھینچ لینا ہی ان کی سمجھ داری ہوگی۔ واضح رہے کہ مشہور وکیل کپل سبل سپریم کورٹ میں زیر سماعت بابری مسجد کے مقدمے میں یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی پیروی کررہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں سماعت کے دوران جب عدالت سے یہ کہاتھا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کو 2019کے عام انتخابات تک التوا میں ڈال دے تو اس پر خاصا واویلا مچا تھا۔ کپل سبل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی  کارروائی سے بی جے پی سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے ، لہٰذا اس کارروائی کو آئندہ عام انتخابات تک کے لئے مؤخر کردیاجائے۔ بی جے پی نے کپل سبل کے اس بیان کو گجرات کے چناؤ میں خوب بھنایا اور اسے مقدمے کی پیروی کررہے ایک وکیل کے بیان کی بجائے کانگریس پارٹی کا بیان قرار دے کر اسے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی، جس سے کانگریس پارٹی دفاعی پوزیشن میں آگئی اور اسے یہ کہنا پڑا کہ یہ کپل سبل کی ذاتی رائے ہے اور اس کا پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات سبھی کو معلوم تھی کہ کپل سبل نے عدالت میں جو کچھ کہا تھا وہ اپنا مؤکل کے کہنے پر کہا تھا لیکن کانگریس کو محسوس ہوا کہ کپل سبل کے بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کرنے سے اس کی امیج ایک مسلم پرست پارٹی کی بن رہی ہے، اس لئے کپل سبل کو اس مقدمے سے علیحدہ ہونے کا حکم دیاگیا۔ 

دراصل کانگریس پارٹی آج کل اپنے اوپر لگے ہوئے ’مسلم پرستی‘ کے الزام کو دھونے کی کوشش کررہی ہے تاکہ وہ بھی بی جے پی کی طرح ہندوتو کے سمندر میں غوطے لگاسکے۔ کانگریس پارٹی کا خیال ہے کہ بی جے پی نے اسے مسلمانوں کی پارٹی قرار دے کر ہندوؤں سے دور کردیا ہے اور یہی اس کی پے درپے شکستوں کا بنیادی سبب ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم آپ کو ذرا پیچھے کی طرف لئے چلتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں کانگریس کی سابق صدر سونیاگاندھی نے’ انڈیا ٹوڈے‘کے ایک پروگرام کے دوران ممبئی میں یہ کہاتھا کہ’’ بی جے پی نے کانگریس کی شبیہ ایک مسلم پارٹی کے طورپر پیش کی ہے جس سے پارٹی کو چناؤ میں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حالانکہ ہماری پارٹی میں ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن اس کے باوجود ہم پر مسلم نواز ہونے کا الزام لگایاجاتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ’’ کانگریس لیڈران اور وہ خود بھی مندروں میں جاتی رہی ہیں لیکن بی جے پی نے کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی بتایا اور وہ اسے ثابت کرنے میں بھی کامیاب رہی۔‘‘ انہوں نے کہاکہ ’’ہم مندروں میں جاتے رہے ہیں ۔ راجیو گاندھی کے ساتھ گھومنے کے دوران میں اس علاقے کے بڑے مندروں میں ضرور جاتی تھی لیکن ہم نے کبھی اس کا پروپیگنڈہ نہیں کیا۔ ‘‘
حالانکہ سونیاگاندھی نے یہ نہیں بتایا کہ بی جے پی کن بنیادوں پر کانگریس کو ’مسلم پرست‘  قرار دیتی ہے اور اس نے مسلمانوں کے لئے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے جس سے اس کے اوپر ’مسلم پرستی‘ کا لیبل لگایاجاتا ہے۔  اگر آپ غور سے دیکھیں تو کانگریس نے مسلمانوں کے لئے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کبھی کچھ اور نہیں کیا۔ وہ فرقہ پرست طاقتوں کا خوف دکھا کر ان کے ووٹ بٹورتی رہی۔نمائش کے لئے اس نے اپنی پارٹی میں کچھ مسلمان لیڈر بھی رکھے ہوئے ہیں جن کی اہمیت ’شوبوائے‘ سے زیادہ کی نہیں ہے۔ کانگریس کی پالیسیاں ہمیشہ اعلیٰ ذات کے برہمن لیڈران ہی بناتے ہیں اور پارٹی میں ہمیشہ برہمنوں کا دبدبہ رہا ہے۔ اب کانگریس اپنے گلے سے مسلم نوازی کا طوق اتارنے کے لئے یوں بے چین ہے تاکہ وہ بی جے پی کے گلے میں پڑا ہوا ہندوتو کا طوق اپنے گلے میں ڈال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات اسمبلی چناؤ کے دوران راہل گاندھی مسلسل مندروں میں ماتھا ٹیکتے رہے اور انہوں نے دکھاوے کے لئے بھی کسی مسلم علاقے کا رخ نہیںکیا تاکہ ان پر مسلم نوازی کا الزام نہ لگ سکے۔المیہ یہ ہے کہ درجنوں مندروں کا دورہ کرنے کے بعد بھی کانگریس گجرات میں اقتدار حاصل نہیں کرسکی۔ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے درست ہی کہاتھا کہ ’’ہندوتو تو ہماری ہی میراث ہے ۔ اسے ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ‘‘
یہ بات یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ بی جے پی کانگریس کو ایک مسلم پرست پارٹی کہہ کر اسے ہندوؤں سے دور کرنے کا کام کرتی ہے ۔ بی جے پی نے کانگریس پر ہمیشہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگاکر ہندوؤں میں یہ بھرم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوںپر ناجائز عنایتوں کی بارش کرتی ہے اور ہندوؤں کو نظرانداز کردیاجاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ اس وسیع پیمانے پر کیاگیا ہے کہ ملک کی اکثریت یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ گویا اس ملک کے تمام وسائل مسلمانوں کے لئے وقف ہیں اور وہی ان کی لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہیں۔ آپ کو یادہوگا کہ جب سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہ کہا تھا کہ’’ اس ملک کے وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے‘‘ تو اس بیان پر سنگھ پریوار نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اسے مسلمانوں کی منہ بھرائی سے ہی تعبیر کیاگیا تھا ۔جب ان ہی منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل دی گئی سچرکمیٹی کی رپورٹ نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ سچر کمیٹی کے ممبران نے پورے ملک کا دورہ کرنے کے بعد حکومت کو جو رپورٹ پیش کی اس کا لب لباب یہ تھا کہ مسلمان اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت ہیں اور ان کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ اسی رپورٹ کے پس منظرمیں منموہن سنگھ سرکار نے ملک میں اقلیتی امور کی پہلی وزارت قائم کی تاکہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جاسکے۔ اگر کانگریس نے منہ بھرائی کی ہوتی تو مسلمان آج ملک کا سب سے اعلیٰ اور خوش حال طبقہ کہلاتے۔ لیکن سچرکمیٹی کے انکشافات کے باوجود بی جے پی کے منفی پروپیگنڈے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور وہ آج بھی یہی نعرہ لگا رہی ہے کہ ’منہ بھرائی کسی کی نہیں ہوگی ،بااختیار سب کو بنایاجائے گا‘۔ حالانکہ بی جے پی کی پالیسی عملی طورپر مسلمانوں کو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طورپر اچھوت بنانے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو چناؤ کے میدان میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی ہے اور نہ ہی ان کی فلاح وبہبود کے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے دیتی ہے۔ 
کانگریس کی مسلم نوازی کو بے نقاب کرنے کے لئے ہم آپ کو تھوڑا پیچھے کی طرف لے جانا چاہیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سن 80کی دہائی میں جب ملک کے اندر رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع ہوا اور بابری مسجد کے خلاف اشتعال انگیز پروپیگنڈہ شروع کیاگیا تو کانگریس نے اس کا توڑ کرنے اور عوام کو حقائق سے روشناس کرانے کی بجائے رام مندر کے ایجنڈے کو بی جے پی سے چھیننے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں وہ اپنے ہاتھ جلا بیٹھی۔ بابری مسجد کو عام پوجا پاٹھ کے لئے کھولنے کے فیصلے سے لے کر بابری مسجد کے روبرو رام مندر کے شیلا نیاس اور رام راجیہ قائم کرنے کے نعروں تک کانگریس نے پے درپے غلطیاں کیں جس کے نتیجے میں صورت حال قابو سے باہر ہوگئی۔ اس سلسلے میں کئی ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں کانگریس نے فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور سیکولرزم کے رہنما اصولوں سے سمجھوتہ کرلیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کو حاصل ہونے والے مسلم ووٹ علاقائی جماعتوں میں بٹ گئے اور تبھی سے شمالی ہندوستان میں وہ مسلسل اقتدار سے محروم ہوتی چلی آرہی ہے۔ آج اترپردیش ، آسام، مغربی بنگال اور بہار جیسی بڑی ریاستوں میں کانگریس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ 
المیہ یہ ہے کہ کانگریس آج اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور میں بھی کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ یکے بعد دیگرے صوبائی اسمبلیاں اس کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں۔ لیکن وہ آج بھی اپنی پالیسیوں میں توازن قائم کرنے کی بجائے ہندوتو کا راگ الاپ رہی ہے۔ بی جے پی عام ہندوؤں کے ذہنوں میں یہ پیوست کرچکی ہے کہ وہی ان کے مفادات کی علمبردار ہے او ران کی نجات دہندہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوؤں کی غالب اکثریت فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کے نتیجے میں مسلمانوں کو حرف غلط سمجھ رہی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے اور پورے ملک کو ایک لڑی میں پرو نے کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ سب اپنا اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ آج مسلمانوں کے عائلی قوانین اور مسلم پرسنل لاء کے خلاف جو فیصلے صادر ہورہے ہیں، اس کی مخالفت کرنے سے وہ پارٹیاں بھی ڈررہی ہیں جن کا ووٹ بینک ہی مسلمان ہیں کہ کہیں ان پر مسلم نوازی کا الزام نہ لگ جائے۔ گویا مسلمان ہونا گناہ ہوگیا ہے۔