Jadid Khabar

مولانا ابوالکلام آزادؒ -ایک روشن ستارہ

Thumb

17 مارچ سے ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں ایک بحث کی جارہی ہے۔ ہرش مندر جو گجرات کے آئی پی ایس ریٹائرڈ سماجی کارکن ہیں ان کے ایک مضمون ’’سونیا -رنجیدگی سے‘‘ (Sonia---Shadly)کے عنوان سے اس کی شروعات ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں تاریخ داں رامچندر گوہا نے لبرل (روشن خیال)- رنجیدگی سے‘‘ (Liberal---Shadly)سے تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کی شناخت اور پہچان پر غیر ضروری سوال اٹھایا تھا۔ ایک دو غیر مسلم صحافی نے ان کا جواب دیا اور ان کی باتوں کو غیر معقول بتایا ہے۔ مسلمانوں میں دہلی کی ارینا اکبر نے بھی جواب دیا۔ پہلے یہ محترمہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں کالم نویس تھیں۔ اب نوادرات کی تاجرہ ہیں۔ ان کا جواب بھی دلائل کے ساتھ تھا۔ راقم نے اس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا جو کئی اخبارات میں شائع ہوا۔ آج (28مارچ) کے شمارے میں سیدہ (سیدین) حمید جو کشمیر کے رہنے والی ہیں اور پلاننگ کمیشن کی ممبر رہ چکی ہیں، اس کا مضمون شائع ہوا ہے۔ ان کے مضمون کا ترجمہ افادہ عام کی خاطر پیش خدمت ہے۔ 

’’میں مسلمانوں کے محلہ (گھیٹو) میں رہتی ہوں۔ میں رات بھر ان پانچ مضامین کو لے کر جو میرے سامنے ہیں بیٹھی رہی جو مسلم اقلیت کے بارے میں ہے، جسے ہرش مندر نے شروع کیا۔ تمام لکھنے والے میرے دوست اور ساتھی (Colleagues) رہ چکے ہیں۔ رامچندر گوہا نہرو میموریل لائبریری میں میرے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ 
میں ایسے مسلمانوں میں سے ہوں جنھیں یہ کہا جاتا ہے : ’’تم ایک مسلمان نہیں معلوم ہوتی ہو‘‘۔ میں برقعہ یا حجاب کا استعمال نہیں کرتی صرف ساڑی پہنتی ہوں وہ بھی اکثر ہینڈ لوم کی اور میں عوام کے فورم میں نظر آتی ہوں۔ مسلمانوں کے بارے میں لباس اور سلوک سے تخمینہ یا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ 1947ء میں میری ماںنے خاندان کے دیگر لوگوں کی رائے اور اتفاق سے مجھے برقعہ دیا۔ حجاب کے بارے میں میرے والد نے کہاکہ اس کا تعلق فرد کی آنکھوں سے ہے، خواہ مرد ہو یا عورت کی پہچان پردہ یا ٹوپی کے استعمال سے نہیں ہوتی۔ میرے والد پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے مگر وہ گھر ہی میں نماز ادا کرتے تھے۔ میں نے اپنے والدین سے سیکھا اور میں بھی اکیلی عبادت کرتی تھی۔ میرے والدین کے سب سے قریبی ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ انھوں نے اپنی تحریر و تقریر میں کہا ہے کہ مومن و مومنہ وہ ہیں جو رات کے تیسرے پہر میں روتے گڑگڑاتے تنہائی میں عبادت کرتے ہیں۔ ان کے یہ الفاظ ہیں جسے میں نے ان کی سوانح حیات میں لکھا ہے۔ جب میں جا نماز پر ہوتی ہوں تو ان کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ میں ان لاکھوں میں سے ایک ہوں جنھوںنے بابری مسجد کے انہدام کو اور اس کے نتیجے میں قتل و غارتگری کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ 
میں ان چھ عورتوں میں سے ایک ہوں جنھوں نے 2002ء کے فسادات میں جلتے ہوئے گجرات کا دورہ کیا۔ وہاں رہ کر تشدد اور بربریت ، مسلم عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ عصمت دری کا مشاہدہ کیا۔ یونان کا اندھا پیغمبر ٹرسیاس کی طرح ایک دوست مسٹر گوہا نے جو ایک تاریخ داں اور دانشور ہیں برقعہ کو بتایا کہ وہ فرسودہ اور دقیانوسی ہے اور ایک ہی سانس میں کہہ دیا کہ ٹوپی اور برقعہ ترشول جیسی چیز ہے۔ برقعہ عورتیں پہنتی ہیں جو کپڑے کا بنا ہوتا ہے۔ اسے ہتھیار ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ مجھے اپنے دوست کی باتوں پر تعجب و حیرت ہوئی۔ 
مسٹر گوہا نے مسلم قیادت کا مسئلہ اٹھایا جو ایک الگ مسئلہ ہے۔ بہت سے صحافیوں اور کالم نویسوں نے بہت سے مسلم لیڈروں یا رہنماؤں کا نام ہے لکھا جس میں عورتوں کو بھی ذکر آیا ہے جس کیلئے میں شکر گزار ہوں۔ لیکن ایسی ہستی اور شخصیت جس کو لوگ بھول چکے ہیں وہ ایک ایسی شخصیت ہے جس نے 1912ء سے آزادی کی تحریک کا بگل بجایاجب مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ میں تھے۔ ان کا رسالہ ’الہلال‘ نے مسلمانوں کو پکارا، دعوت دی اور ترغیب و تحریک دلائی کہ ہندوؤں کے ساتھ سیاست میں بھرپور حصہ لو۔ 1923ء میں مولانا ابوالکلام آزاد جب ان کی عمر 35سال تھی کانگریس کے سب سے کم عمر صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ دہلی کے اجلاس میں انھوںنے کہاکہ اگر آسمان سے ایک فرشتہ اترکر زمین پر آئے اور اعلان کرے کہ آزادی اور ہندو مسلم اتحاد میں سے کوئی ایک چیز کا انتخاب کرو تو میں دوسری چیز یعنی اتحاد کا انتخاب کروں گاکیونکہ آزادی اگر دیر سے ملتی ہے تو یہ ہندستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد ختم ہوگا تو یہ انسانیت کا نقصان ہوگا۔ 
ہرش مندر نے مجھ سے مولانا آزاد کی تقریروں کا ریکارڈ مانگا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں انھیں دے نہیں سکی۔ وہ اپنے ’’کاروانِ محبت‘‘ میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ آج مولانا آزاد کو یاد کرنے والا کوئی نہیں، یہاں تک کہ کانگریس بھی یاد نہیں کرتی۔ مولانا آزاد نے کانگریس کیلئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ مولانا آزاد ہمیشہ ٹوپی استعمال کرتے تھے اور داڑھی رکھتے تھے اور ان کی شناخت مسلمانوں کی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد آزادی کے مجاہد تھے، جن کی خدمات ہندستان کی آزادی کیلئے مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ وہ غیر معمولی مجاہد اور مدبر اور دانشور تھے۔ میں نے اپنی لائبریری میں مولانا آزاد کی تصویریں آویزاں کر رکھی ہے اور ایک اور تصویر جو مولانا کے ساتھ گاندھی اور نہرو کی ہے اسے بھی لگا رکھی ہے۔ یہ لوگ میرے کام میں حوصلہ دیتے ہیں۔ میں اس سے پہلے کی تثلیث یا تکڑی (Triumvirate) کا ذکر کروں، مندر اور اپوروا نند کے نظریہ پر بات کرتی ہوں۔ ہرش مندر نے لکھا ہے ’’مسلمان ہندستان میں برابر کے شہری ہیں۔ اس کے تصور، اس کی تعمیر و تشکیل میں اور اس کے مستقبل کے خاکہ میں رنگ بھرنے میں یکساں اور برابر ہیں۔ دراصل یہ مولانا آزاد کی آواز کی باز گشت ہے جو انھوں نے ایک مسلمان اور ہندستانی کی حیثیت سے کہا اور لکھا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو حقیقت میں ہندو اور مسلمان دونوں کی رہنمائی کیلئے ہیں۔ 
1946ء میں مولانا آزاد دوبارہ رام گڑھ کے سیشن میں کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ اسی سیشن میں انھوں نے سب کے سامنے با آواز بلند کہا:
 ’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب، میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے، لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی، وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندستانی ہوں۔ میں ہندستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔ میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر عامل (Factor) ہوں میں اپنے اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔ 
مسلمان اور سیکولر ہندو جو ایک قوم کی طرح ہیں اور سیکولر پارٹیاں کیا ان الفاظ یا اقوال کی پیروی کریں گی اور اس ملک کے نازک حالات کی بحالی کیلئے اپنی زندگی کو نچھاور کرنے اور خون دینے کیلئے تیار ہیں؟ 
ترجمہ: عبدالعزیز