Jadid Khabar

راہل گاندھی کا دلیرانہ بیان

Thumb

کانگریس کے جواں سال صدر راہل گاندھی اے آئی سی سی پلینری سیشن میں کانگریس کے لیڈروں اور کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ان پر مندروں میں جانے پر سوال اٹھایا جارہا ہے؛ حالانکہ وہ گجرات کے اسمبلی الیکشن سے پہلے سے مندروں میں جاتے تھے اور صرف وہ مندروں میں نہیں جاتے بلکہ وہ مسجدوں، گرجا گھروں اور گردواروں میں بھی جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ وہ دو مذہبی پیشواؤں (امام، پادری، پروہت) سے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک کانگریسی ذہن سے تعلق رکھتا تھا جبکہ دوسرا بی جے پی ذہن کا تھا۔ جب میں نے ان میں سے ایک سے سوال کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے یا کیا کرنا ہوگا تو ان میں سے ایک نے کہاکہ’’ آپ مذہبی رسومات کو انجام دیں مگر یہ تسلیم کریں کہ خدا یا ایشور ہر جگہ موجود ہے‘‘۔ دوسرے پروہت نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا مگر کہاکہ ’’میں نے پوجا پاٹ کا حق ادا کیا ۔ اب آپ وزیر اعظم ہوجائیں گے۔ جب آپ گدی پر بیٹھ جائیں تو براہ کرم میرے مندر کو سونے کا بنا دیں‘‘۔ پہلے پجاری کو راہل گاندھی نے کانگریس کے ذہن کا بتایا اور دوسرے کو آر ایس ایس اور بی جے پی کی ذہنیت کا آدمی کہا۔ 
راہل گاندھی نے مہابھارت کی کہانی کا حوالہ دیتے ہوئے دو کرداروں کی وضاحت بھی کی ہے۔ ایک کردار سچائی پر تھا جبکہ دوسرا جھوٹ اور باطل پر ۔ راہل گاندھی نے کہاکہ کانگریس نے سچائی کیلئے لڑنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انڈیا جھوٹ پر قائم رہے گایا سچائی اور صداقت کا مقابلہ کرے گا۔ وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے راہل گاندھی کے بیان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ راہل گاندھی نے ذات پات اور رام کے وجود پر سوال اٹھایا ہے۔ بی جے پی بھی عجیب و غریب پارٹی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے صدر کی تقریر کا جواب وزیر دفاع صاحبہ دے رہی ہیں اور بجائے جواب دینے کے راہل گاندھی کو رام کے وجود پر سوال کھڑا کر رہی ہیں۔ امیت شاہ یا مودی جی خاموش ہیں۔ 
راہل گاندھی نے دو ذہنیت کی کیفیت یادو کردار پیش کئے ہیں۔ ایک مثبت اور منفی یا تعمیری یا تخریبی۔ ایک خدا پرستی پر دھیان گیان دیتا ہے جبکہ دوسرا مندر یا مسجد کی تعمیر اور بنانے میں سرگرم عمل رہتا ہے، جس کا دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔ بی جے پی اور ان کے ساتھی اور ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے لوگوں کا مذہب روحانیت یا اخلاقیت پر دھیان نہیں ہوتا بلکہ مذہب کے نام پر کرسی کا حصول یا مارپیٹ، دنگا فساد جسے وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کرتے ہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ نرملا سیتا رمن ہندو بھائیوں کو ورغلانے کیلئے راہل گاندھی کو سوال کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہیں کہ وہ رام کے وجود پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں؛ حالانکہ راہل گاندھی نے رام کا نام تک نہیں لیا صرف مثبت اور تعمیری باتوں کی طرف ملک کے شہریوں کی توجہ مبذول کرائی اور جھوٹ، فریب اور دغا بازی، کرپشن سے لڑائی لڑنے کی بات کہی ہے مگر سنگھ پریوار کا جو معاملہ ہے وہ فرقہ پرستی کی آگ سے کھیلنا ہے۔ دنیا میں حق اور باطل کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی کی پارٹی حق پرستوں کی پارٹی ہے مگر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے مقابلے میں سیکولر ہے اور فرقہ پرستی سے لڑنے کے عزائم رکھتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ لڑنے میں کبھی نرمی کا مظاہرہ کرتی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے جیسے راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے پاس شیلا نیاس کی اجازت دے دی تھی اور اپنی ایک انتخابی مہم کا آغاز اسی جگہ سے کیا تھا۔ گجرات میں کانگریس کو ہرانے کیلئے بی جے پی نے ہرکرتب کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے۔ مودی نے پاکستان کا نام لے کر کہا کہ کانگریس کے ایک لیدڑ منی شنکر ایئر نے پاکستانی سفیر کے ساتھ دہلی میں میٹنگ کی ہے اور احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانے کی بات طے کی ہے۔ ایئر نے اسی موقع پر نریندر مودی کو کہا تھا کہ ’’بڑا نیچ قسم کا آدمی ہے‘‘۔ اسے مودی اپنی چھوٹی ذات پر یا چھوٹی ذاتوں پر حملہ قرار دیا۔ اسی طرح نرملا سیتا رمن کو بھی ذات پر حملہ آوری دکھائی دے رہی ہے؛ حالانکہ راہل گاندھی نے ذات پات کا نام تک نہیں لیا۔ 
راہل گاندھی نے خدا کے وجود کی بات ایک پادری یا امام کے حوالے سے کی ہے کہ خدا ہر جگہ ہے۔ یقینا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رام کو جو لوگ خدائی درجہ دیتے ہیں وہ اپنے خدا کو اجودھیا کی سر زمین میں مقید کر دیتے ہیں۔ سوامی اگنیویش نے چند ہفتوں پہلے اپنے ایک مضمون میں رام مندر کی تحریک کو ایک معقول اور ناقابل قبول تحریک ہے۔ سوامی جی نے کہا تھا کہ ایشور یا خدا کی کوئی شکل نہیں ہوتی، وہ نراکار (Formless / Shapeless) ہے۔ خدا کے بارے میں یہ وید اور پران جو ہندوؤں کی مذہبی کتاب ہے اس میں یہ تصور موجود ہے کہ خدا کا کوئی مادی وجود نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی شکل و صورت ہوتی ہے۔ وہ نراکار یعنی Formless پوتا ہے۔ ہندوؤں کا بہت بڑا طبقہ ہے جو اپنی مذہبی کتابوں پر اعتقاد رکھتا ہے۔ برہمو سماج ہندوؤں ہی کا ایک طبقہ ہے۔ ان کے یہاں مورتی پوجا نہیں ہے۔ آسام جیسے علاقے میں بھی مورتی پوجا کا تصور نہیں۔ شمال مشرق کے ہندو بھی مورتی پوجا کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ 
جو لوگ راہل گاندھی کی باتوں کو سمجھنا چاہتے ہیں میری گزارش ہے کہ سوامی اگنیویش کے اس مضمون کو ضرور پڑھیں جو رام مندر کے حوالے سے انھوں نے لکھا ہے اور ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے۔ راقم نے اس کا ترجمہ اردو میں کیا ہے جو اردو کے کئی اخبارات میں بھی شائع ہوا ہے۔ آج اسے پھر ’فیس بک‘ میں دے رہے ہیں تاکہ لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہو اور راہل گاندھی نے جس سچائی کی طرف توجہ دلائی ہے اس کی حقیقت کا بھی علم ہو۔ 
راہل گاندھی نے جو جارحانہ حملے کا انداز اپنایا ہے وہ اس وقت ملک کی ضرورت ہے کیونکہ باطل پرستی یا فرقہ پرستی نے بہت رنگ جما لیا ہے اور جڑ پکڑلی ہے۔ اسے سخت ضرب لگانے کی ضرورت ہے جو چیز جڑپکڑ لیتی ہے۔ وہ معمولی ضرب سے ختم نہیں ہوتی۔ کئی بار ضرب لگانا پڑتا ہے اور پوری طاقت سے لگانا پڑتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ محض کانگریس فرقہ پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن اتحاد کی ضرورت ہے۔ ضمنی انتخاب میں اتحاد اور بہار الیکشن میں مہا گٹھ بندھن (عظیم اتحاد) نے بتا دیا ہے کہ بی جے پی یا فرقہ پرستوں کو بری طرح ہرایا جاسکتا ہے۔