Jadid Khabar

’’کیوں بھائی ‘وہ پاکستانی ہیں کیا؟‘‘

Thumb

’’عجیب رواج بن گیا ہے ۔ مسلم محلوں میں زبردستی جلوس لے جاؤ اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاؤ ۔ کیوں بھائی وہ پاکستانی ہیں کیا؟‘‘

بریلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راگھویندر وکرم سنگھ کی مذکورہ فیس بک پوسٹ اس وقت بحث کے محور میں ہے۔ اس پوسٹ کو جہاں صاف ذہن لوگوں کی حمایت حاصل ہورہی ہے، وہیں فرقہ پرست عناصر اسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذہنی خلل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پوسٹ نے اس ذہنیت کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے جو آج کل مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ خاص طورپر بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو پاکستانی قرار دے کران پر ظلم وستم کی جو نئی مہم چلی ہے، اس پر یہ پوسٹ بالکل درست بیٹھتی ہے۔ کاس گنج کے حالیہ فساد میں اے وی بی پی کے کارکنوں کی اشتعال انگیز حرکتوں کے سبب اس بیان کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے کیونکہ وہاں پولیس نے مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا جواز ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں کو ہی بنایا ہے۔ 
راگھویندر وکرم سنگھ کے اس بیان پر یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا واقعی اتنے برے حالات میں بھی ہندوستان کی بیوروکریسی میں ایسے صاف ذہن لوگ موجود ہیں جو سیاہ وسفید کا فرق سمجھتے ہیں اور اس کو بیان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ظاہر ہے جب نفرت کی تیز ہوائیں چلتی ہیں اور انسانیت کا دم گھٹ رہا ہوتا ہے تو کچھ لوگ میدان میں ایسے ضرور آتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت پر لوگوں کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ راگھویندر وکرم سنگھ ایسے اکیلے نوکرشاہ نہیں ہیں جنہوں نے تمام خطرات مول لے کر حقیقت بیانی سے کام لیا ہے بلکہ اس ملک میں ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہے، جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ حال ہی میں ملک کے 67سابق نوکرشاہوں نے وزیراعظم نریندرمودی کے نام  ایک کھلے خط میں ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی روش پرسخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ (29جنوری ) کی ایک رپورٹ کے مطابق 67سبکدوش آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران نے وزیراعظم کو لکھا ہے کہ’’ گزشتہ کچھ عرصے سے اقلیتوں کے خلاف وحشیانہ حملے ہورہے ہیں اور ان حملوں کے خلاف انتظامیہ افسوسناک حد تک لاپروائی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ‘‘اس خط میں گزشتہ برس کے پانچ اہم واقعات کا تذکرہ کیاگیا ہے جن میں دادری کے محمد اخلاق اور الور کے پہلو خان کو درندگی اور بربریت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار نے جیسے واقعات کاذکر ہے۔ اس خط میں مذکورہ واقعات پر وزیراعظم نریندرمودی کے خاموش تماشائی بنے رہنے اور صوبائی حکومت کے ذریعے کوئی سنجیدہ کارروائی نہ کئے جانے پر اظہار افسوس کیاگیا ہے۔ سبکدوش افسران نے اپنے خط کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے کہ ’’ ہم آل انڈیا سینٹرل سروسز سے وابستہ مختلف بیجوں کے افسران پر مشتمل ایک گروپ ہیں۔ ہم اپنے کیریئر میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مختلف ذمہ داریاں نبھاکر سبکدوش ہوئے ہیں۔‘‘ اس خط میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ’’ہمارے اس گروپ کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہم ملک کے دستور میں یقین اور اعتماد رکھنے والے افراد ہیں۔‘‘ وزیراعظم کے نام لکھے گئے اس خط پر دستخط کرنے والوں میں وزارت صحت کے سابق سکریٹری کیشوراجو اور سجاتاراؤ، اطلاعات ونشریات کے سابق سکریٹری بھاسکر گھوش ، سابق انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ ، سابق آئی ٹی سکریٹری برجیش کمار اور سابق کمشنر اور سماجی کارکن ہرش مندرکے نام بھی شامل ہے۔ 
ہم آپ کو یاددلادیں کہ ان نوکر شاہوں میں آخری نام ہرش مندر کا ہے جو گجرات کیڈر کے آئی اے ایس آفیسر ہیں انہوں نے 2002 میں گجرات کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سرکاری ملازمت کو الوداع کہہ دیا تھا اور فساد زدگان کے ریلیف کیمپوں میں پہنچ کر انہیں انسانی بنیادوں پر بے مثال مدد پہنچائی تھی۔ ہرش مندرنے اس کے بعد ملک میں ہونے والے ہر ظلم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی ہے بلکہ وہ مظلوموں کی داد رسی کے لئے ان کے دروازوں تک گئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں مسلمانوں کو ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان پر بدترین ظلم وستم ڈھائے جارہے ہیں۔ اترپردیش کے کاس گنج کا فساد اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس مہم میں سنگھ پریوار کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ دونوں قسم کے کارکنان پیش پیش ہیں۔ کاس گنج میں یوم جمہوریہ کے موقع پر آر ایس ایس کے کارکنوں نے  ایک مسلم علاقے میں یوم جمہوریہ کی تقریب پر دھاوا بول کر اسے تہس نہس کیا اور مسلمانوں پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کا الزام عائد کرکے ان کی کروڑوں روپے کی املاک خاکستر کردی گئیں اورپھر سینکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میںڈال دیا گیا۔ ظاہر ہے یہ سب ایک منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ تھا۔ جب اس صورت حال کے خلاف بریلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فیس پوسٹ لکھی تو انہیں وزیراعلیٰ نے لکھنؤ طلب کرکے اپنا بیان واپس لینے اور معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ تاہم انہوں نے اپنی پوسٹ حذف کرنے کے ساتھ ساتھ جو دوسری پوسٹ لکھی وہ ان کی انسان دوستی کی مثال ہے۔ راگھویندر وکرم سنگھ نے اپنی دوسری پوسٹ میں لکھا کہ ’’پاکستان ہمارا دشمن ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ ہمارے مسلمان ہمارے ہیں، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ ہمارے مسلمان بھائی ہمارا ہی خون ہیں اور ہمارا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ 
جن 67سابق نوکر شاہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی روش کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے ثبوت حالیہ واقعات سے بھی ملتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں جب فلم ’پدماوت‘ کی ریلیز کے خلاف کرنی سینا کے وحشی کارکن ملک کے مختلف حصوں میں تباہی وبربادی پھیلارہے تھے تو انہوں نے ہریانہ کے شہر گڑگاؤں میں بچوں سے بھری ہوئی ایک اسکولی بس کو نشانہ بنایا تھا۔ جب اس واقعہ کی چوطرفہ مذمت ہوئی اور کرنی سینا کے کارکنوں کو وحشی قرار دیاگیا تو فوری طورپر بھگوابریگیڈ نے اس غم وغصے کو مسلمانوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی تاکہ انہیں حالات کا ایندھن بنایاجاسکے۔ بھگوا بریگیڈ کی سرگرم کارکن مدھوکشور نے ایک پوسٹ میں پانچ مسلم نوجوانوں کے نام لکھ کر کہاکہ بس پر حملہ کرنے والوں میں یہ پانچوں نوجوان شامل تھے۔ وہ تو داد دیجئے کہ گڑگاؤں پولیس کو جس نے فوراً ٹوئیٹ کرکے کہاکہ ہریانہ روڈ ویز اور اسکولی بس پر حالیہ حملے کے سلسلے میں کسی مسلم نوجوان کو گرفتار نہیں کیاگیا ہے۔ 
اس سلسلۂ واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف بھگوا بریگیڈ کے لوگ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے میں پیش پیش ہیں اور بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈران اشتعال انگیز بیان دے کر جلتی میں تیل ڈالنے کا کام کررہے ہیں، وہیں اس ملک میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ملک کو آگ اور خون کے خطرناک کھیل سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہرچند کہ ایسے لوگوں کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن وہ اپنا کام بلا خوف وخطر جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک ظالمانہ نظام کو پوری جرأت کے ساتھ چیلنج کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں تقویت پہنچائی جائے اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی کو جواب صبر وتحمل سے دیا جائے تاکہ بھگوا بریگیڈ کے ناپاک عزائم ناکام ہوسکیں۔